سورہ رحمن کی عظمت و افادیت
قسط نمبر 8
چوتھی حس چھونے کی حس ہے‘ جسے قوت لامسہ کہتے ہیں۔ اس حس کے ذریعہ انسان ان دیکھی چیزوںکا بھی احساس کر لیتا ہے۔ جن لوگوں کی قوت لامسہ صحیح طور سے کام کر رہی ہوتی ہے وہ آنکھیں بند کر کے بھی اگر کسی چیز کو چھو لیں تو بغیر دیکھے بھی سمجھ لیتے ہیں کہ ہاتھ کس چیز کو لگ رہا ہے۔ چھونے سے عورت مرد کا‘ انسان کاہاتھ فالج کی وجہ سے بیکار ہوگیا ہو اور اس کی چھونے کی حس ختم ہو گئی ہو تو اس سے پوچھئے کہ ’’قوت لامسہ‘‘ کی نعمت کیسی نعمت ہے اور جو لوگ اس نعمت سے محروم ہیں ان پر کیسی گزرتی ہے؟
پانچویں حس بولنے اور گفتگو کرنے کی حس ہے اور یہی وہ حس ہے جو انسان اور حیوان کے درمیان وجہ امتیاز بنی ہوئی ہے۔ دیکھنے‘ سننے اور چھونے کی قوتیں تو سبھی جانوروں میں بھی ہوتی ہیں لیکن انسان کو رب العالمین نے بولنے اور گفتگو کرنے کی جو صلاحیت بخشی ہے وہ دوسری مخلوقات میں نہیں ہے۔ اگر انسان میں تمام خوبیاں ہوتیں صرف گفتگو اور بات چیت کی صلاحیت نہ ہوتی تو انسان کی وجہ امتیاز ہی ختم ہو جاتی۔ بات چیت کی صلاحیت ہی انسان کو دوسری مخلوقات سے ماسوا جنات کے ممتاز کرتی ہے۔ انسان گفتگو کے ذریعہ اس کائنات پر گہرے تاثرات چھوڑتاہے۔ اس کا بیان اور اس کا انداز بیان اسے فوقیت اور برتری عطا کرتا ہے اور اس کی شان عظمت میں زبردست اضافہ کرنے کا موجب بنتا ہے۔ اسی بنا پر خالق کائنات نے باانداز صریح یہ فرمایا ہے کہ خَلَقَ الْاِنْسَانَ عَلَّمَہُ الْبَیَان اللہ نے انسان کو پیدا کیا پھر اس کے اندر قوت گویائی کی صفت پیدا کی۔ اگر غوروفکر سے کام لیں تو سبھی کو یہ اندازہ ہو جاتا ہے۔ انسان کا پورا بدن خد اکی قدرت کو واضح کرنے کا ایک لاجواب نمونہ ہے جس میں ایک ایک چیز حیرت ناک انداز سے فٹ ہے اور ایک ایک چیز کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ آنکھ‘ کان‘ ناک‘ ماتھا‘ سر‘ سینہ‘ بازو‘ رانیں‘ پائوں‘ گھٹنے‘ پیٹ‘ زبان‘ کمر‘ گردن‘ دل‘ جگر‘ پھیپھڑے‘ گردے‘ تلی‘ پتہ‘ مثانے وغیرہ جیسی تمام چیزیں خدا کی صناعی کا جیتا جاگتا شاہکار ہیں اور ان میں کون سی چیز ہے جو اپنی جگہ عظیم الشان نعمت نہیں ہے اور ہم ان میں کس کس نعمت کی تکفیریں کر سکتے ہیں؟ اسی لئے قرآن حکیم میں ایک جگہ یہ بھی ارشاد فرمایا گیا ہے کہ وَفِیْ اَنْفُسِکُمْ اَفَلاَ تُبْصِرُوْن۔
اور تم اپنے جسموں کے اندر غوروفکر کرو کیا تم نہیں دیکھ سکتے؟
حقیقت یہ ہے کہ پوری کائنات تو بہت بڑی چیز ہے انسان کا جسم ہی خدا تعالیٰ کی قدرت کو سمجھنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے لیکن ان لوگوں کے لئے جنہیں اللہ نے عقل سلیم عطا کی ہے اورجن میں غوروفکر کرنے اور جستجو کرنے کا مادہ موجود ہے۔ جو لوگ عقل و فہم سے محروم ہیں ان کے لئے اس کائنات کی ہزاروں لاکھوں نعمتیں بھی کچھ نہیں ہیں۔ قرآن حکیم میں بار بار یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ اس قرآن میں ہزار طرح کی نشانیاں ہیں لیکن ان لوگوں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں اور جن میں غوروفکر کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْن۔اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَاتٍ لِّقَِوْمٍ یَّعْقِلُوْن جیسی آیات قرآن حکیم میں جگہ جگہ نظر آتی ہیں۔
اس کے بعد سورۂ رحمن میں یہ فرمایا گیا اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُبَّان یعنی چاند اور سورج کو ایک حساب کے تحت پیدا کیا گیا یعنی چاند اور سورج اپنی رفتار میں اللہ کے پابند ہیں وہ ایک طے شدہ حساب کے ساتھ چلتے ہیں وہ اپنی من مانی نہیں کرتے۔ اللہ نے ان سیاروں کے لئے ایک حساب مقرر کر دیا ہے اور قیامت تک یہ دونوں سیارے اس حساب کے پابندرہیں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ حساب ہے۔
اس بات کو قدرے تفصیل کے ساتھ قرآن حکیم میں یوں ارشاد فرمایا گیا ہے۔
ھُوَالَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآئً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا وَّقَدَّرَہٌ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ مَاخَلَقَ اللّٰہُ ذٰلِکَ اِلاِّ بِالْحَقِّ یُفَصِّلْ الَاٰیَاتِ لِقَوْمِ یَّعْلَمُوْنَ۔
’’اللہ کی ذات‘ وہ ذات گرامی ہے کہ جس نے سورج کو چمکتا ہوا اور چاند کو نورانی بنایا اور اس کی رفتار کے لئے منزلیں مقرر کیں تاکہ ایک سال کی گنتی اور حساب معلوم کیا جا سکے اور اللہ نے یہ تمام چیزیں بے فائدہ پیدا نہیں کیں۔ مفصل بیان کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان نشانیوں کوان لوگوں کے لئے جو علم و آگہی سے بہرہ ور ہیں۔
آج ساری دنیا اس بات سے واقف ہے کہ چاند ماہانہ حساب کا ایک لاجواب ذریعہ ہے اور سورج سالانہ حساب کا بے مثال نمونہ ہے اور ان دونوں سیاروں کی گردش ہی کے پیش نظر اس کائنات میں ماہانہ اور سالانہ حساب و کتاب کو ترتیب دینے کیلئے ہزاروں جنتریاں اور کیلنڈر شائع ہوتے ہیں اور ان دونوں سیاروں کی مخصوص گردش ہی کی بنا پر اس کائنات میں موسم اور فضائوں میں تغیر پیدا ہوتا ہے۔ سردی ہو یا گرمی برسات ہو یا خشکی یہ سب کچھ ظاہری اسباب میں چاند اور سورج کی گردشوں کا مرہون منت ہے۔ اگر یہ دونوں سیارے ایک جگہ ٹھہر جائیں تو پھر موسم بھی ایک ہی جگہ ٹھہر کر رہ جائے گا اور اس طرح اس کائنات کا نظام معطل ہو جائے گا۔ رب کائنات نے کائنات کے نظام میں تنوع پیدا کرنے کیلئے چاند اور ستاروں کی رفتار مقرر کر دی۔
ذرا اندازہ کیجئے حکم کی تعمیل کا کہ سورج ۲۸ فروری کو جس وقت نکلتا ہے ہر سال ۲۸ فروری کو ٹھیک اسی وقت نکلے گا۔ ہزاروں سال کے کیلنڈر اٹھا کر دیکھ لیجئے مجال نہیں ہے کہ سورج ۲۸ فروری کوایک سیکنڈ پہلے یا ایک سیکنڈ بعد میں طلوع ہوا۔ اللہ تعالیٰ کا ایک جچا تلا نظام ہے جو اس کائنات کو لے کر چل رہا ہے اور اسی طرح قیامت تک چلتا رہے گا۔
سورۂ رحمن کی اس آیت میں چاند اور سورج دونوں ہی سیاروں کے بارے میں یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ ایک حساب کے تحت پیداکئے گئے ہیں اور ان کی رفتار اور ان کا حساب طے شدہ ہے۔ یہ دونوں سیارے الل ٹپ نہیں چل رہے ہیں۔ اس فرمان الٰہی سے ہمیں اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ جس طرح سورج کی طے شدہ رفتار سے ہم سال کے حساب بنا لیتے ہیں اسی طرح چاند کے طے شدہ حساب اور رفتار سے ہم ماہانہ حساب بھی تیار کر سکتے ہیں۔ یہ جو ۲۹ اور ۳۰ کے چاندکے جھگڑے ہیں یہ غوروفکر نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ ورنہ جس طرح سورج کے طلوع و غروب کا وقت طے شدہ ہے اسی طرح چاند کے طلوع اور غروب ہونے کا وقت بھی طے شدہ ہے لیکن ہم انسانوں نے اس بارے میں غوروفکر نہیں کیا ورنہ ہمیں خود بھی اندازہ ہو جاتا کہ رب کائنات نے چاند کو بھی سورج کی طرح ایک طے شدہ حساب کے تحت پیدا کیا ہے اور چاند بھی سورج کی طرح اپنے رب کے حکم کی تعمیل میں اپنا روزمرہ کا سفر جاری رکھتا ہے اور یہ دونوں سیارے پورے سال ایک طے شدہ حساب کے تحت گردش کرتے ہیں۔ یہ سرمو اپنی رفتار سے انحراف نہیں کر سکتے۔ چنانچہ ساری دنیا اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ ہر سال ہجری اور عیسوی سالوں میں دس دن کا فرق ہو جاتا ہے۔ ہر سال ہجری سال عیسوی سال کے مقابلے میں ۱۰ دن پیچھے لوٹتا ہے۔ اس حساب سے ہر ۳۶ سال کے بعد ماہ رمضان ماہ جنوری میں لوٹ آتا ہے۔ دراصل عیسوی سال ۳۶۵ دن کا ہوتا ہے اور ہجری سال ۳۵۵ دن کا۔ عیسوی حساب میں مہینوں کے دن متعین ہیں۔ ہر سال ۷ مہینے ۳۱ دن کے ہوتے ہیں‘ ۴ مہینے ۳۰ دن کے اور ایک مہینہ ۲۸ دن کا ہوتا ہے۔ جنوری‘مارچ‘ مئی‘ جولائی‘ اگست‘اکتوبر اور دسمبر ۳۱ دن کے ہوتے ہیں۔ اپریل‘ جون‘ ستمبر اور نومبر ۳۰ دن کے ہوتے ہیں اور فروری ۲۸ دن کا۔ ہجری حساب میں ۳۱ دن کا کوئی مہینہ نہیں ہوتا۔ مہینہ یا تو ۲۹ دن کا ہوتا ہے یا ۳۰ دنن کا۔ عیسوی سال میں یہ متعین ہے کہ کون سا مہینہ کتنے دن کا ہے۔ جبکہ ہجری سال میں یہ متعین نہیں ہے۔ کوئی سا بھی مہینہ ۲۹ کا اور کوئی سا بھی مہینہ ۳۰ دن کا ہو سکتا ہے۔البتہ عموامی طور پر ہجری سال ۳۵۵ یا ۳۵۴ دن کا ہوتا ہے اس حساب سے ہجری سال میں ۷ چاند ۳۰ کے اور پانچ چاند ۲۹ کے ہوتے ہیں یا پھر چھ چاند ۳۰ کے اور چھ چاند ۲۹ کے ہوتے ہیں۔ ایسا شاذونادر ہی ہوتا ہے کہ ۱۲ مہینوں میں ۷ چاند ۲۹ کے اور پانچ چاند ۳۰ کے ہو جائین۔ اس تجربہ سے اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ نظام شمسی کی طرح نظام قمری بھی طے شدہ ہے۔ اختلافات قمر سے بچنے کیلئے صرف تھوڑی سی غوروفکر کی ضرورت ہے۔ عیسوی سال میں جنوری اور اکتوبر ایک ہی دن سے شروع ہوتے ہیں۔ اگریکم جنوری کو اتوار ہوگا تو یکم اکتوبر کو بھی اتوار ہی ہوگا۔ اگر لیپ کا سال نہ ہو تو فروری‘ مارچ اور نومبر ایک ہی دن سے شروع ہوتے ہیں۔اپریل اور جولائی بھی ایک ہی دن سے شروع ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ہجری سال میں۔ بالعموم محرم اور شوال ایک ہی دن سے شروع ہوتے ہیں۔ صفر‘ رجب اور ذیقعدہ ایک ہی دن سے شروع ہوتے ہیں۔ ربیع الثانی اور رمضان المبارک ایک ہی دن سے شروع ہوتے ہیں اور ذی الحجہ اور جمادی الاول ایک ہی دن سے شروع ہوتے ہیں۔ شاذونادر ہی اس اصول کے خلاف ہوتا ہے۔ اس لئے قرآن حکیم کا یہ دعویٰ اپنی جگہ سو فیصد درست ہے کہ الشمس والقمر بحسبان کہ چاند اور سورج ایک جچے تلے حساب کے ساتھ پیدا کئے گئے ہیں۔ یعنی ان کی جو رفتار روزانہ ماہانہ اور سالانہ مقرر کردی گئی ہے۔یہ اسی حساب سے چلتے ہیں اور ایک طے شدہ پروگرام کے تحت گردش کرتے ہیں۔
قسط نمبر 7