جدید نجوم اور جدید سیارہ یورانس
تاریخ و احکام در زائچہ
قسط نمبر 1
پیارے قارئین کرام! جاننا چاہیے کہ قدیم نجوم جو بابل عراق سے شروع ہوا۔ پھر شام،مصر،ایران، یونان، روم اور پاکستان و ہندوستان تک متعارف ہوا۔ اس میں مرکز کائنات زمین ہے۔زمین کے گرد قمر، عطارد، زہرہ، شمس، مریخ، مشتری اور زحل گھوم رہے ہیں۔ اس کے گرد راس و ذنب بھی گھوم رہے ہیں۔ اس نظریہ پر ایک عظیم کتاب مصر کے بطلیموس کی المجسطی ہے۔ جو 85تا 175عیسوئی کے درمیان لکھی گئی۔ پوری دنیا میں یہودی، عیسائی، ہندو، پارسی اور مسلمان اس کتاب پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن آج سے 2593تا2511سے قبل ایک عظیم فلاسفر اور مفکر فیثا غورث یونان میں گزرا ہے۔ جس کا زمانہ 500تا582قبل مسیح تھا۔اس نے مرکز ارض کے خلاف بات کی تھی۔ اس نے پہلے پہل کہا تھا کہ زمین گول ہے اور سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔ چاند سورج سے روشنی لے کر منعکس کرتا ہے۔ انہوں نے اجرام فلکی کا مشاہدہ کر کے یہ بتایا کہ ہیں ستارے کچھ اور نظر آتے ہیں کچھ۔ یہ قول اس نے سورج، چاند اور سیارگان کی گردش کو دیکھ کر فرمایا تھا جو آج تک زندہ ہے۔ اسی عظیم مفکر نے زندہ رہنے کے لیے اور زندگی کے لیے اربعہ عناصر آگ، ہوا، پانی اور مٹی کو زندگی کے وجود کے لیے لازمی قرار دیا۔ اور ان اربعہ عناصر کو بنیادی عناصر قرار دیا۔
فیثا غورث کے نظریہ مرکز شمس کہ زمین سورج کے گردگھوم رہی ہے اور باقی سیارے بھی سورج کے گرد گھوم رہے ہیں۔ عالم اسلام میں افغانستان کے علاقہ سجستان کے احمد نامی ماہر فلکیات و ریاضی دان نے تائید اور تصدیق کی تھی۔ احمد سجستانی 951ء تا1024ء کے درمیان زمانہ میں موجود رہا ہے۔ فیثا غورث اور احمد سجستانی کی بات اور نظریہ پر تحقیق جدید پولینڈ کے علاقہ تورون کے نکولس کو پرنیکس نے کی۔ یہ جدید مغربی دنیا کا ماہر فلکیات 1473ء تا1543 ء میں گزرا ے۔ یہ عیسائی مذہب کے قدامت پسند ملک کیتھولک سے تعلق رکھتا تھا۔ اگرچہ جدید اور جدت پسند مسلک پروٹسٹنٹ بھی مرکز ارض کے قائل تھے۔ مگر نکولس کوپرنیکس نے ارسطو اور بطلیموس کے خلاف بات کر کے فیثا غورث یونانی اور احمد سجستانی افغانی کی بات پر تحقیق کر کے تائید و تصدیق کے کر عیسائیت کو ہلا دیا۔کیونکہ عیسائی لوگ ارسطو اور بطلیموس کی بات اور نظریہ مرکز ارض کو انجیل کی آیت اور انجیل کی طرف مقدس اور سچا مانتے تھے۔ نکولس کو پرنیکس کے عیسائیت کے نظریہ کے خلاف بات کر کے گویا مرتد ہو گیا اور واجب القتل ہو گیا ۔ نکولس کوپرنیکس کی کتاب نظریہ گردش ارض کے عنوان سے تھی۔ نکولس کوپرنیکس 24مئی 1543 بمطابق 28/29 صفر المظفر 950ھ بروز جمعرات کو فوت ہو گیا۔مگر اس کی آواز فوت نہیں ہوئی۔ اس کی آواز پراٹلی کے شہر پسیا میں 15فروری 1564 بمطابق 02رجب المرجب 971ھ بروز منگل کو پیدا ہونے والا گلیلیو گلیلی نے کان دھرا اور اس پر مزید تحقیق کی۔ اس نے جدید سائنس کی بنیاد رکھی اور بانی سائنس شمار ہونے لگا۔ اسی گلیلیو کی وجہ سے جدید نجوم کی بنیاد پڑی۔ اور لوگوں نے جدید نجوم یا مرکز شمس کے نظریہ پر تحقیق کرنا شروع کر دی اور کائنات کو طاقت ور دور بینوں سے مشاہدہ کرنے لگے اور آسمان کو ٹٹولنے لگے یا کھنگالنے لگے۔ اس طرح یورپ کا ماہر فلکیات ولیم ہرشل کی نظروں میں ایک نیا سیارہ آ گیا۔ ولیم ہرشل دائرۃ البروج/ تارا منڈل پر برج ثور اور برج جوزا پر نظر یں جمائے بیٹھا تھا کہ اسے نیلگوں سبزی مائل طشتری نظر آ گئی۔ یہ13مارچ 1781ء مطابق 12/13ربیع الاول 1196ھ بروز منگل کی شام کی بات ہے۔ ولیم ہرشل کی نظر اس سیارے پر اچانک پڑی اور یہ اچانک نظر آیا تھا نہ کہ اسے تلاش کیا جا رہا تھا۔ ولیم ہرشل توقدیم نجوم کے مطابق اور جدید نظریہ نجوم کے مطابق محض تحقیق کر رہا تھا۔ مگر گہری نظر سے مشاہدہ کر رہا تھا۔ اس نئے سیارے کے نظر آنے پر اس کی زبان سے اور منہ یہ الفاظ بے ساختہ / اچانک نکل گئے کہ یہ معمولی ستارہ نہیں ہو سکتا۔ مگر دوسری راتوں میں اسے سرکتا ہوا پایا تو اسے یقین ہو گیا کہ یہ ستارہ نہیں بلکہ سیارہ ہے۔
ولیم ہرشل کی اس اچانک دریافت پر فلکیات اور نجوم کی دنیا میں بھی اچانک انقلاب آ گیا۔ ولیم ہرشل کا زمانہ 1738ء تا1822ء ہے۔ وہ مغربی جرمنی کے شہر ہینوور میں فوجی بینڈ میں بانسری نواز تھا۔ فلکیات اس کی ابتدائی زندگی میں بالکل شامل نہ تھی۔ آسمان کا مشاہدہ اس نے محض تفریح کے طور پر شروع کیا ۔وہ تو ایک بانسری نواز موسیقار تھا۔ وہ نجوم میں اضافی طور پر دلچسپی لیتا تھا۔ ولیم ہرشل کے اس شاندار اور اتفاقی مشاہدے سے اسے عالمگیر شہرت مل گی۔ اس طرح نجومی دنیا اور علمی دنیا میں علمی انقلاب کا سہرا اس کے سر بندھ گیا۔ گویا یہ سچ ہے کہ قدرت جس سے جو کام لے یا قدرت جس سے جو چاہے کام لے سکتی ہے۔ کیونکہ ولیم ہرشل کوئی ماہر فلکیات نہ تھا۔ اس سے یورانس محض اتفاقیہ دریافت ہو گیا۔ ولیم ہرشل کے اس دریافت شدہ سیارے کا نام اس وقت کے انگلینڈ کے بادشاہ جارج سوم کے نام پر رکھنے کی کوشش کی گئی مگر ناکامی ہوئی۔ بلکہ اسے یونان کے دیو مالائی کہانیوں میں سے سٹیرن (زحل) کے باپ یورانس کے نام پر اس سیارہ کا نام ماہر فلکیات جے ۔ای۔بوڈ نے رکھا۔ اس دریافت سے قدیم نجوم جدید نجوم میں داخل ہو گیا۔ لوگ نجوم میں آخری سیارہ زحل کو کہتے تھے۔ اسے سب سے زیادہ بلند یا دور ہونے کی وجہ سے اہل فارس کیوان جاہ کہتے تھے۔ یورانس کی دریافت سے یہودی، عیسائی، ہندو اور مسلمان سبھی پریشان ہو گئے کہ ان کے یورانس نے پہلی بار چکر پورا کیا۔ 24اگست1863ء بروز پیر قدیم علم نجوم کی آساس اور بنیاد ہل گئی تھی۔ گویا کہ یہ ایک اچانک علم نجوم میں زلزلہ آ گیا تھا۔ یورانس کی دریافت سے قدیم نجوم کا قاعدہ بروج پر حاکم سیارے والا قاعدہ غلط ہو گیا اب ماہرین نجوم کو بروج پر حاکموںکی تبدیلی کرنا پڑی یا سوچ پیدا ہو گی۔ اور یورانس کی دریافت سے علم نجوم میں اضافہ ہو گیا۔ آثار النجوم میں اضافہ کرنا پڑ گیا۔ یورانس جب پہلی بار نظر آیا تو وہ اس وقت برج جوزا(ترنگن) کے آخر میں24درجہ 27دقیقہ پر تھا۔ اور شمس برج حوت کے22درجہ49دقیقہ پر تھا۔جبکہ قمر در عقرب منزل میں تھا۔ یورانس مقام دریافت پر دوبارہ 24اگست 1863ء کو آیا۔دوسری بار29جولائی 1947ء کو آیا۔ جس کے17روز بعد پاکستان 14اگست 1947ء بروز جمعرات کو وجود میں آ گیا۔یہ عالم اسلام کی پہلی اسلامی ریاست تھی۔
یورانس تیسری بار برج جوزا کے 24درجہ27دقیقہ پر9جولائی 2031ء بروز بدھ کو آئے گا۔ یورانس جب ولیم ہرشل کو نظر آیا تھا۔ اس زمانہ میں یورانس برج جوزا میں9/8اپریل 1775ء ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات کو داخل ہوا تھا۔ اس تاریخ کو علماء نجوم شرف شمس کا روز شمار کرتے ہیں۔ کیونکہ شمس برج حمل کے19درجہ پر ہوتا ہے۔ اور عطارد کو برج حوت میں 15 درجہ پر ہبوط ہوتا ہے۔ جبکہ حوت کے27درجہ پر زہرہ کو شرف ہوتا ہے۔ جب یورانس دریافت ہوا تھا۔ اس وقت یورانس در جوزا سے شمس در حوت سے نظر تربیع بنا رہا تھا۔ اور برج قوس میں زحل اور مریخ قران کر چکے تھے اور اب بھی حد قران میں تھے جو یورانس سے نظر مقابلہ پر تھے۔ مریخ یورانس اور شمس سے خاص طور پر مقابلہ اور تربیع پرتھا۔ نظرات کے اعتبار سے شمس اور مریخ کی تربیع بامقابلہ جنگ و جدل اور مخالفوں میں انتشار اور تفریق و جدائی کے لیے خاص نظر ہے۔ اور یورانس قمر در عقرب میں نظر آیا ہے۔ جبکہ برج عقرب میں مشتری آخری درجات پر اور رجعت کی حالت میں تھا۔ اور یورانس سے ساقط تھا۔ اس صورت میں یورانس نحس حالت میں نظر آتا ہے۔ اور جب یہ برج جوزا میں داخل ہوا تھا اور ابھی تک ولیم ہرشل سے دریافت نہیں ہوا تھا تو اس قوت شرف شمس تھا اور زحل خانہ شرف میں تھا۔ شمس و زحل مقابل بروج میں تھے۔ سعدین زہرہ و مشتری برج ثور میں تھے۔ برج ثور میں زہرہ حاکم ہے جبکہ مشتری کا خانہ دشمن ہے۔ چونکہ یورانس کا نام زحل کے باپ کے نام پر رکھا تھا۔ یورانس در جوزا قبل از دریافت پر زحل اس کے ہم عنصر برج اور تثلیثی برج میزان میں تھا۔ زحل کا خانہ شرف بھی اور یورانس سے نظر تثلیث کی حد میں بھی تھا۔ اس صورت میں یورانس کو زحل کے برج ثانی دلو کا حاکم مقرر کیا گیا۔ اور چونکہ وہ برج جوزا میں دریافت ہوا تھا۔ اس لیے یورانس کو عطارد کی اعلیٰ خصوصیات کا حامل قرار دیاگیا۔ یا یورانس کو عطارد کی اعلی قوتوں کا مجموعی قرار دیا گیا۔
فلکیات دانوں کے نزدیک یورانس سورج سے1,78,19,00,000 میل دور ہے۔جب یورانس اور زمین کے درمیان سورج آ کر قران اعلی کرتے ہیں تو فاصلہ1,87,48,00,000میل ہو جاتا ہے۔اور جب یورانس کی محوری گردش 10گھنٹے 49منٹ ہے ۔ اور دوری گردش تقریباً 84 سال (130687دن) ہے۔ اس کا قطر استوائی55800 کلومیٹر ہے۔ یورانس کے پانچ چاند دریافت ہو چکے ہیں۔ مرنڈا، ایریل، امبریل، ٹائی ٹانیا اور اوبرون ہیں۔ مرنڈا دراصل آخر میں دریافت ہوا تھا۔ ٹائی ٹانیا اور اوبرون تیسرا اور چوتھا چاند ہے۔ اس کو ہمر شل نے1787ء میں دریافت کیا تھا۔ ایریل اور امبریل پہلا اور دوسرا چاند ہیں۔ اس کو لاسل نے 1851ء میں دریافت کیا تھا۔ جبکہ مرنڈا کو کوئپر نے 1848ء میں دریافت کیا تھا۔ یورانس سے مرنڈا 8100میل دور ہے۔ ایریل 119000میل دور ہے۔ امبریل 166000میل دور ہے۔ ٹائی ٹانیا 273000میل دور ہے۔ اور اوبرون 364000میل دور ہے۔ یورانس تک سورج کی روشنی زمین کی نسبت 1/400حصہ پہنچتی ہے۔ یورانس کا قطر 15مارچ 1977ء میں امریکی رصد ناسا میں ناپنے کی کوشش کی گئی تو اس کے بھی زحل کی طرح چھے حلقے پائے گئے۔ گویا کہ یہ زحل ثانی ہے۔ ماہرین نجوم نے آثار الجنوم کے تحت اس سیارے کو ان لوگوں کے بارے میں منسوب کر دیا جو دماغ سے بالاتر سوچنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ بے عقید یا دہریہ قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ قدیم مذہبی عقائد سے خارج ہوتے ہیں۔ یہ جدت پسند ہوتے ہیں۔ خود پسند ہوتے ہیں۔ اس لیے ضدی بھی ہوتے ہیں۔ قوت تخلیق رکھنے والے اور موجد ہوتے ہیں۔ خودمختاری سکھاتاہے۔ واقعاتی حادثات میں اچانک تبدیلی یا اچانک بھک سے اڑ جانا دھماکہ وغیرہ سیاسی تبدیلیوں کا سیارہ ہے۔ مستقبل کے لیے تجاویز اور مستقبل میں اچانک کوئی غیر متوقع واقع کا ہو جانا۔ ایسے منظم واقعات جو غیر اطلاع کے ظہور پذیر ہو جائیں۔ سائنسی ایجادات اسی سیارے کے تابع کر دی گئی ہیں۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن، وی سی آر، ٹیلی فون، تار، موبائیل فون، فوٹو گرافی، ریل گاڑی، ہوائی جہاز اور موٹر کاریں وغیرہ اس سیارہ کے تحت شمار کر دی گئی ہیں۔ گیس ، پانی اور بجلی کا محکمہ اس کے ماتحت ہے۔ہڑتالیں اور بلوہ یا ڈکیتی اور ٹارگٹ کلنگ اس کے تحت آتے ہیں۔ کیونکہ ماہرین نجوم یورانس کے اندر مریخ اور قمر کی قوت دیکھتے ہیں۔ جدت پسند شاعر، انقلابی شاعر اس کے ماتحت ہیں۔ الہام، وجدان اور شاعری یورانس کے تحت گنتے ہیں۔نئے نظریات قائم کرنے والے، قدامت کو جدت میں تبدیل کرنے والے۔ پرانی اشکال کو نئی اشکال دینے والے نئے قوانین بنانے والے یا پرانے قوانین میں ترمیم و تنسیخ کرنے والے اور مضبوط قوت ارادی رکھنے والے، اختراع و ایجادات کرنے والے یا نظریات میں تبدیلیاں کرنے والے اور نظریات و عملیات و عقائد میں نئی زندگی ڈالنا، روح پھونکنا اور اس میں برقی قوت پیدا کر کے ازسرنو قوت دیتا ہے۔مردہ شدہ رسومات، عقائد یا کاموں اور منصوبوں کو ازسرنو زندہ کر دیتا ہے۔ ڈرامائی طور پر حرکت لاتا ہے اور تبدیلیاں لاتا ہے۔ مضبوط خیالات، عقائد اور نظریات کو توڑنا اور اس میں ترمیم کرنا یورانس کے تحت آتا ہے۔ اچانک صدمہ پہنچنا یا کام میں رکاوٹ اچانک پیدا ہو جانا یورانس کے تحت آتا ہے۔ جسے پہلے زحل کے تابع سمجھا جاتا تھا۔ عملیات، تعویذات، کشف، مراقبہ اور ٹیلی پیتھی کا تعلق یورانس سے جوڑا گیا ہے جسے روحانی علاج کا نام دیا گیا ہے۔ دغا و فریب سے یورانس کا کوئی تعلق واسطہ نہ ہے۔ بلکہ اصل حقائق دقائق کی حد تک جانچ پڑتال کرنا یورانس کے تحت آتا ہے۔ یعنی ریسرچ کرنا یا کرانا یورانس کے تحت آتا ہے۔ ایسے کام جو ہوتے ہوتے رُک جاتے ہیں یا رُکے ہوئے اچانک شروع ہو جاتے ہیں۔ یعنی غیر مسلسل اور غیر متوقع انداز کے جملہ اعمال یورانس کے ماتحت ہوتے ہیں۔ کاروبار زندگی میں اچانک خوش قسمتی کا مل جانا یا اچانک بدقسمتی کا آجانا یا چھا جانا پہلے زحل کے ماتحت سمجھا جاتا تھا۔ اب یہ یورانس سے سمجھا جاتا ہے۔ بدنظمی ، بے قاعدگی، بے ضابطگی بھی یورانس کے تحت مانی گئی ہے۔غیر مستقل مزاجی یا طبیعت میں گو مگو /کش مکش یا خواہ مخواہ کی حالت مدوجزر طبیعت کے علامت ہوتی ہے یا بے استقلال / غیر استقلال میں آتی ہے۔ یہ یورانس کی حالت ہے۔ ایسے معاملات جہاں آدمی بے بس یا بے اختیار ہو جائے۔ جیسے لقوہ، فالج، صامت (گونگا ہو جانا) ہو۔ اعضاء کا کام کرنا چھوڑ دینا جیسے بریک فیل ہو جاتی ہے۔ اعصاب کا کام چھوڑ دیا اور امراضِ اعصاب تشنج، دل میں وسواس دماغ میں مرگی، مالخولیا اور مراق یا فاسد خیالات یورانس کا خلل سمجھا جاتا ہے۔ رحم کے امراض، مثانہ و گردہ کے اعصاب میں خلل آ جانا جیسے سوزاک، آتشک، جریان، سرعت انزال یا اساقط حمل، لیکوریا اور جریان خون، زنانہ امراض پراثر یورانس کا سمجھا جا رہا ہے۔ جسم پر خارش کان کا درد، دانت کا درد اور ناک کا درد، چیچک، قولنج اور بواسیر کو یورانس کے تابع سمجھا گیا ہے۔
جدید نجوم اور جدید سیارہ یورانس
تاریخ و احکام در زائچہ
قسط نمبر 1