محبان رسول
حضرت سالم رضی الل عنہ
قسط نمبر 1
یہ مضمون راہنمائے عملیات ماہ اپریل2022کے شمارے سے لیا گیا ہے۔
ابوعبداللہ کنیت ، سالم رضی اللہ عنہ ، والد کا نام بعض کے نزدیک عبید بن ربیعہ اور بعض کے نزدیک معقل ہے۔ ایرانی الاصل ہیں۔ اصطخر ان کا آبائی وطن تھا۔ مولی ابی حذیفہ بن عتبہ کے لقب سے مشہور ہیں ۔ دراصل حضرت ابو حذیفہ کی بیوی شبینہ بنت یعار انصاریہ کے غلام تھے۔ انہوں نے آزاد کر دیا تو حضرت ابو حذیفہ نے انہیں اپنا بیٹا بنا لیا اور اپنی بھتیجی فاطمہ بنت ولید سے ان کا نکاح کر دیا۔ چنانچہ لوگ انہیں سالم بن حذیفہ کہنے لگے۔ مگر جب قرآن مجید میں “ادعوھم لا با ء ھم” (ان کو ان کے باپ کی نسبت سے بلایا کرو)کا حکم نازل ہو ا تو لوگ انہیں سالم مولی ابی حذیفہ کہنے لگے۔ مکہ میں اسلام کا غلغلہ بلند ہوا تو حضرت سلام رضی اللہ عنہ حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ یہیں مقیم تھے فوراً حلقہ بگوش اسلام ہو گئے ۔ آنحضرتﷺ نے حضرت عبیدہ بن ابحراح سے بھائی چارہ کرادیا۔ مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ آنحضرت ﷺ سے بھی پہلے مدینہ پہنچ گئے۔ سرور کونین ﷺ نے مدینہ پہنچ کر معاذ رضی اللہ عنہ بن ماعص سے مواخات کر ا دی۔
حضرت سالم رضی اللہ عنہ نہایت پر جوش اور بہادر مجاہد تھے۔ غزوہ بدر، احد اور تمام اہم معرکوں میں شریک رہے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مرتدین سے یمامہ میں جنگ کی نوبت آئی ، تو حضرت سالم رضی اللہ عنہ اس میں شریک تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں جھنڈا تھا ۔ کسی نےکہا “آپ رضی اللہ عنہ یہ جھنڈا کسی اور کو دے دیجئے، آپ کی جان کو خطرہ ہے” بولے تو پھر میں برا حامل قرآن ہوں گا۔ نہ مانے اور جھنڈا لے کر میدان جنگ میں وارانہ گھسے چلے گئے، داہنا ہاتھ کٹ گیا تو بائیں ہاتھ سے علم تھام لیا، بایاں ہاتھ بھی قلم ہو گیا تو لواء کو گردن میں ڈال لیا کہ وہ خم نہ ہونے پائے ۔ آپ رضی اللہ عنہ جھنڈے کو سینہ سے چمٹائے اور گردن سے لگائے ہوئے تھے اور زبان مبارک پر یہ فقرہ جاری تھا”محمد صرف ایک رسول ہیں اور کتنے نبی ہیں جس کے ساتھ بہتیرے اللہ والے قتل کیے گئے”۔
اس حالت میں کب تک مقاومت کرتے ، رخموں سے چور ہر کر گرے تو پوچھا “ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کاکیا حال ہے”۔ کسی نے کہا “وہ تو قتل کر دیے گئے”۔ پھر کسی شخص کانام لے کر دریافت کیا ” اس کا کیا حال ہے”؟ لوگوں نے کہا “وہ بھی قتل کر دیے گئے” فرمایا” مجھ کو ان دونوں کے درمیان لٹا دو”۔
ابن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں “جنگ یمامہ میں مسلمانوں کے پاؤں پیچھے پڑنے لگے تو حضرت سالم رضی اللہ عنہ نے فرمایا”حیف! رسولﷺ کے ساتھ تو ہمار ا حال ایسا نہ تھا”۔ کہ کہہ کر انہوں نے اپنے لیے ایک گڑھا کھود لیا اور اس میں کھڑے ہو کر علم لیے ہوئے آخری لمحہ حیات تک لڑتے رہے۔ جنگ کے خاتمے پر لوگوں نے دیکھا کہ اُن رضی اللہ عنہ کا سر اپنے منہ بولے باپ حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاؤں پر تھا۔ شہید ہونے کے بعد دیکھا گیا تو اُن کا ترکہ صرف ایک ہتھیار اور ایک گھوڑا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو شبینہ بنت یعار انصاریہ کے پاس بھیج دیا۔ انہوں نے اس کو قبول نہیں کیا اور کہا کہ “حضرت سالم رضی اللہ عنہ کو آزاد کرنے والی تو سائبہ ہیں”حضرت سائبہ کے پاس یہ ترکہ بھیجا گیا تو انہوں نے فرمایا ” میں نے سالم رضی اللہ عنہ کو محض اللہ کے لیے آزاد کیاتھا ۔ مجھ کو اس کی ضرورت نہیں ہے”۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کے بعد اس تمام ترکہ کو بیت المال میں داخل کر دیا۔ حضرت سالم رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر پھیلی تو لوگوں نے کہا ” آج ایک ربع قرآن جاتا رہا”۔
حضرت سالم رضی اللہ عنہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے طبقہ سابقون الا ولون میں سے سمجھے جاتے تھے۔ قراْت اور حسن صوت کے امام تھے۔ آنحضرت ﷺ فرماتے تھے ” قراْت چار شخصوں سے حاصل کرو، عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ، سالم رضی اللہ عنہ مولی ابی حذیفہ، ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ، معاذبن جبل رضی اللہ عنہ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں”جب سے میں نے انحضرت ﷺ سے یہ سنا ہے میں حضرت سالم رضی اللہ عنہ سے بہت محبت کرنے لگا ہوں”۔ خوش الحانی کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ آنحضرت ﷺ کے پاس تشریف لا رہی تھیں ، راستہ میں رک گئیں ۔ سرور کونین ﷺ نے وجہ دریافت کی تو فرمایا” ایک شخص قرآن مجید کی تلاوت کر رہا تھا، میں اس کو سننے لگی۔آنحضرتﷺ کو یہ سن کر اتنا اشتیاق ہوا کہ فوراًرداء مبارک سنبھالتے ہوئے باہر تشریف لائےاور جب دیکھا کہ یہ قاری حضرت سالم رضی اللہ عنہ تھے تو زبان اقدس یو ں زمزمہ پیرا ہوئی”۔ جمیع حمد ثابت ہے اس خدا کے لیے جس نے میری امت میں تمہارے جیسے لوگوں کو پیدا کیا “حضرت سالم رضی اللہ عنہ کے لیے اس سے بڑھ کر فضیلت و بزرگی اور کیا ہو سکتی ہے کہ خود نبوت کی زبان حق ترجمان اس پر فخر و ناز کرے۔
اسی خوش الحانی اور فن قراْت میں مہارت و امامت کے باعث آپ رضی اللہ عنہ مسجد قبا میں نماز پڑھاتے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز پڑھتے تھے۔ حضرت سالم رضی اللہ عنہ کے اس فضل وکمال کی وجہ سے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم آپ رضی اللہ عنہ کا بڑا احترام کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وفات کے وقت فرمایا”اگر آج سالم رضی اللہ عنہ زندہ ہوتے تو میں خلافت کی سفارش ان کے لیے کرتا”۔
حضرت اسلم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا “تم لوگ تمنا کرو”کسی نے کہا”میں اس بات کی تمنا کرتا ہوں کہ یہ گھر سونے سے بھرا ہوتا اور میں اس سب کو اللہ کے راستہ میں خرچ کر دیتا۔ اور صدقہ دے ڈالتا۔ ایک دوسرے شخص نے کہا ” اے کاش یہ گھر پکھراج اور جواہرات سے پر ہوتا اور میں فی سبیل اللہ وہ سب لٹا بیٹھتا”۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” اور کوئی تمنا ظاہر کرو” لوگوں نے کہا ہم نہیں جانتے اے امیر المومنین رضی اللہ عنہ ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تمنا کرتا ہوں کہ یہ گھر ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ، معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ، سالم رضی اللہ عنہ ، مولی ابی حذیفہ رضی اللہ عنہ اور حذیفہ بن الیمان ایسے بزرگوں سے بھرا ہوتا”۔
حضرت سالم رضی اللہ عنہ اخلاق کے اعتبار سے نہایت بلند پایہ بزرگ تھے۔ گزشتہ واقعات زندگی سے اُن کی استقامت اور استقلال و پامردی کا ثبوت ملتا ہے۔ دنیا و اہل دنیاسے بے تعلق رہتے تھے۔ جو کچھ کماتے تھے مختلف اسلامی ضرورتوں اور غلاموں کی ضرورتوں پر صرف کر دیتے تھے۔