سورہ رحمن کی عظمت و افادیت
قسط نمبر 9
سورۂ یٰسین میں فرمایا گیا ہے۔ وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقِرٍّ لِّھَا ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْم وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَا۔ مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْم لاَ الشَّمْسُ یَنْبَغِیْ لَھَا اَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلاَ اللَّیْلُ سَابِقْ النَّھَار۔ وَکُلُّ فِیْ فَلَکِ یَّسْبَحُوْنَ۔
اور اپنے ٹھکانہ پر چلتا رہتا ہے۔ یہ طے شدہ رفتار اس ذات کی طرف سے ہے جو زبردست علم و حکمت والا ہے اور چاند کی منزلیں متعین کیں اور (ایک منزل میں پہنچ کر) وہ ایسا رہ جاتا ہے جیسے کھجور کی ٹہنی‘ نہ آفتاب کی مجال ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن سے پہلے آ سکتی ہے اور یہ دونوں ایک ہی دائرے میں تیر رہے ہیں۔ اس آیت میں اور زیادہ کھل کر رب العالمین نے اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ چاند اور سورج کی رفتار طے شدہ ہے۔ یہ اللہ کے حکم سے ایک مخصوص چال اور مخصوص حساب کے ساتھ اپنے اپنے دائروں میں رواں دواں ہیں۔ ان میں سے کسی کی بھی یہ مجال نہیں ہے کہ کسی ایک سے آگے نکلنے کی کوشش کرے یا طے شدہ پروگرام کو تہس نہس کرنے کی کوشش کرے۔ یہ دونوں اللہ کے حکم کے پابند ہیں اور اسی طرح دن اور رات بھی اللہ کے حکم کے پابند ہیں انہیں بھی ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کا نہ حق ہے نہ اختیار۔
قرآن حکیم نے چاند اور سورج کے سفر کی طرف کھل کر اشارہ کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ ہر وہ سیارہ جو چاند اور سورج کی طرح گردش کرتا ہے وہ بھی اللہ کے حکم کا پابند ہے۔ اس کی جو بھی رفتار اور سفر کی ابتدا انتہا متعین ہے وہ اللہ کے حکم کی تعمیل میں ہے کسی بھی سیارے کو من مانی کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ علم نجوم کے مطابق ان ہی سیاروں کی گردش سے دنیا کا نظام مقرر ہوتا ہے۔ تقدیریں بنتی ہیں اور بگڑتی ہیں اور یہ سب کچھ اللہ کے حکم سے ہوتا ہے۔ سیاروں کو ذاتی طور پر یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی کی تقدیر بنا سکیں یا بگاڑ سکیں۔ شمس و قمر نظام فلکیات کے سب سے بڑے سیارے ہیں۔ باقی سیارے ان ہی دو سیاروں سے اکتساب فیض کرتے ہیں۔ ان میں سے چند سیاروں کے نامیہ ہیں۔ عطارد‘ مشتری‘ مریخ زحل اور زہرہ۔ ان سیاروں کی بھی رفتار متعین ہے اور یہ بھی ایک طے شدہ پروگرام کے تحت اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔
شمس: جیسا کہ عرض کیا گیا کہ یہ سیارہ سب سے بڑا سیارہ ہے۔ دیگر سیارے اسی کے ماتحت ہیں اور ان کا وجود عالم اسباب میں اسی سیارے کا مرہون منت ہے یعنی وہ سیارے اسی سے روشنی پاتے ہیں۔یوں سمجھیں کہ اگر بالاتفاق شمس سیاہ پڑھ جائے اور کسی وجہ سے اپنا نور کھو بیٹھے تو دیگر سیارے بھی سیاہ پڑ جائیں گے کیونکہ وہ سب کے سب اسی سے اکتساب فیض کرتے ہیں۔
شمس کا تعلق برج اسد سے ہے۔ یہ سیارہ تمام سیاروں سے پانچ گنا بڑاہے اور اس زمین سے جس پر ہم رہتے ہیں۔ ۱۳ لاکھ اسی ہزار گنا بڑا ہے۔ سورج کا قطر آٹھ لاکھ سرسٹھ ہزار میل ہے اور محیط دو کروڑ پینتیس لاکھ ہے۔ کرۂ ارض زمین سے سورج کا فاصلہ نو کروڑ پچاس لاکھ میل ہے۔ اس کی رفتار ایک سیکنڈ میں انیس میل ہے اور اس کی روشنی کی رفتار فی سیکنڈ ایک لاکھ اسی ہزار ہے۔ طلوع ہونے سے سات منٹ میں زمین تک پہنچ جاتی ہے۔ آفتاب بارہ برجوں کا سفر تقریباً تین سو پینسٹھ دن ۶ گھنٹے میں پورا کرتا ہے اور ایک برج میں تقریباً تیس دن رہتا ہے۔
قمر: یہ ستارہ وجود کے اعتبار سے دوسرے نمبر کا سیارہ ہے۔ اس کا تعلق برج سرطان سے ہے۔ اس کا قطر دو ہزار ایک سو ساٹھ میل ہے اور محیط چوبیس ہزار آٹھ سو پچھتر میل ہے۔ اس کا فاصلہ دو لاکھ پینتیس ہزار پانچ سو نو میل ہے۔ یہ زمین سے تقریباً انیس حصے چھوٹا ہے۔ اس کی جسامت زمین سے ۴۹ حصے کم ہے۔ یہ زمین کے اردگرد سرسٹھ دن سات گھنٹے بیالیس منٹ اور پانچ سیکنڈ میں گھوم جاتا ہے۔ قمر کی رفتار فی گھنٹہ دو ہزار دو سو اسی میل ہے۔ یہ ایک برج میں تقریباً سوا دو گھنٹے رہتا ہے۔
مریخ: اس کا تعلق برج حمل اور عقرب سے ہے۔ اس کی رفتار تقریباً فی گھنٹہ پانچ سو بیس میل ہے۔ یہ ستارہ زمین سے کافی چھوٹا ہے۔ سورج سے اس کا فاصلہ تیرہ کروڑ ستر لاکھمیل ہے۔ اس کا قطر چار ہزار ایک سو آٹھ میل ہے۔ یہ سیارہ ایک برج میں چالیس دن رہتا ہے اور چار سو اسی دنوں میں بارہ برجوں کا سفر تہہ کرتا ہے۔
عطارد: اس کا تعلق برج جوزا اور برج سنبلہ سے ہے۔ اس کا فاصلہ زمین سے تین کروڑ آٹھ لاکھ اٹھہتر ہزار میل دور ہے۔ اس کی رفتار فی گھنٹہ نو لاکھ ایک ہزار میل ہے۔ اس کا قطر ایک ہزار آٹھ سو میل ہے۔ اس کا قیام ایک برج میں اٹھارہ دن رہتا ہے۔ یہ سیارہ بارہ برجوں کا سفر دو سو سولہ دنوں میں طے کر لیتا ہے۔
مشتری: اس کا تعلق برج قوس اور برج حوت سے ہے۔ یہ سیارہ سورج سے ۳۸ کروڑ میل کے فاصلے پر ہے۔ اس کی رفتار فی گھنٹہ چار سو اسی میل ہے۔ زمین سے اس کا فاصلہ اڑتالیس کروڑ اڑتیس لاکھ میل ہے اور یہ زمین سے دو سو پچاس گنا بڑا ہے۔ یہ سیارہ ایک برج میں ایک سال رہتا ہے اور بارہ برجوں کا سفر بارہ سال میں طے کرتاہے۔
زحل: اس کا تعلق برج جدی اور برج دلہ سے ہے۔ یہ سیارہ زمین سے چار سو سینتیس گنا بڑاہے۔ اس کا قطر اناسی ہزار میل ہے۔ یہ سورج سے اٹھتر کروڑ باون لاکھ میل کے فاصلہ پر ہے۔ اس کی رفتار فی سیکنڈ چھیانوے میل ہے۔ یہ ایک برج میں تقریباً تیس ماہ تک رہتا ہے اور بارہ برجوں کا سفر تقریباً انتیس سال میں پورا کرتا ہے۔
یہ تمام سیارے اللہ کے حکم اور مرضی کے پابند ہیں اور یہ تمام سیارے دنیا کے موسم پر اور انسانوں کی تقدیروں پر باذن اللہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ ستاروں اور برجوں کا ذکر قرآن حکیم میں متعدد مرتبہ آیا ہے اور اس ذکروفکر سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ خالق کائنات نے آسمان پر شمس و قمر اور ستاروں کا جو نظام پھیلایا ہے وہ مفید ترین ہونے کے ساتھ ساتھ حیرت ناک بھی ہے۔
مثلاً حق تعالیٰ نے بزبان خود سورج کے بارے میں فرمایا: وَجَعَلْنَا الشَّمْسَ سِرَاجًا (سورۂ نوح) حق تعالیٰ نے سورج کو ایک چراغ کی مانند پیدا کیا۔ سورج کو پیدا کرنے کی کل حکمتیں کیا ہیں اس سے تو خداوند قدوس ہی باخبر ہیں لیکن جس حد تک اپنے عقل و فہم اور علمی و آگہی کے حساب سے ہم سمجھتے ہیں تو ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں رات اور دن کا یہ حیرت ناک نظام اسی سورج کی بدولت ہے۔ اگر یہ سورج نہ ہوتا تو دن کا نظام درہم برہم ہو جاتا اور اس کائنات میں زبردست خلل واقع ہو جاتا۔ اگر سورج نہ ہوتا تو یہ کائنات اندھیروں میں ڈوبی رہتی۔ آپ دیکھ لیجئے روزانہ سورج چھپنے کے بعد ہماری یہ دنیا کس طرح اندھیروں میں ڈوب جاتی ہے اور سورج کے طلوع ہونے کے بعد پھر سے ہر طرف اجالے بکھر جاتے ہیں اور یہ دنیا پھر تاریکی سے نکل آتی ہے۔ سورج نکلنے کے بعد اہل دنیا اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اگر دنیا میں روشنی نہ ہو تو کون کیسے کاروبار کرتا اور زندگی کا لطف کیسے حاصل ہوتا جو رب العالمین کی بخشی ہوئی ایک نعمت بھی ہے اورایک دولت بھی۔
اب ذرا سورج کے غروب ہونے کے منافع پر غور کیجئے۔ اگر سورج غروب نہ ہوتا مسلسل روشن ہی رہتا تو دنیا والے آرام کیسے کرتے۔ جب اس کائنات پر اندھیروں کا غلبہ ہو جاتا ہے تو لوگ اپنے اپنے گھروں میں جا کر دن بھر کی تھکن دور کرتے ہیں اور اندھیرا انہیںسکون فراہم کرتا ہے۔ سورج کے غروب ہونے کے بعد جب انسان اپنے اپنے گھروں میں پہنچ کر آرام کرتے ہیں تو اس آرام کی بدولت جسم کی مشین میں اگلے دن پھر نئے سرے سے مصروف ہونے کی تازگی پیدا ہوتی ہے اور رات کا آرام قوت ہاضمہ پر اثرانداز ہو کر انسان کی تندرستی بحال رکھتا ہے۔
ذرا سوجئے اگر سورج چوبیس گھنٹے نکلا رہتا تو زمین سورج کی حررات سے تپ کر رہ جاتی اور انسانوں اور جانوروں کے جسم سورج کی گرمی سے جھلس کر رہ جاتے۔ موسم گرما میں صبح آٹھ بجے سے سورج کی گرمی سے لوگ پریشان ہو جاتے ہیں اور سائے کی تلاش دس بجے سے شروع ہو جاتی ہے اور سورج کی حرارت سے بچنے کے لئے بجلی کے پنکھے‘ اے سی اور کولر جیسی چیزوں کا سہارا پکڑتے ہیں تب کہیں جا کر چین ملتا ہے۔ اگر سورج چوبیس گھنٹے نکلا رہتا تو انسانوں پر کیا گزرتی۔ رب العالمین کا کرم ہے کہ اس نے سورج کے نکلنے اور غروب ہونے کا وقت متعین کر دیا ہے تاکہ اس کے طلوع و غروب سے دونوں طرح کے فائدے اٹھائے جا سکیں۔ اگر چوبیس گھنٹے سورج طلوع رہتا تو بھی مقصد حیات فوت ہو جاتا اور اگر چوبیس گھنٹے سورج غروب رہتا تو بھی مقصد حیات فوت ہو جاتا۔ رب العالمین نے دن اور رات کا نظام پیدا کر کے انسانی زندگی کی ضروریات پوری کی ہیں۔ دن میں انسان جدوجہد کرتا ہے اور اس وقت روشنی اور اجالے کی ضرورت پڑتی ہے۔ سورج ہی انسانوں کو روشنی فراہم کرتا ہے۔ رات کو انسان دن بھر کی بھاگ دوڑ کے بعد آرام کرنا چاہتا ہے اسے اس وقت اندھیرے کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ سورج غروب ہو کر انسانوں کواندھیرا فراہم کرتا ہے اور آرام کے وقت انسان کو اسی اجالے سے وحشت ہوتی ہے۔ کاروبار اورجدوجہد کے وقت جو اجالا اسے مرغوب ہوتا ہے۔ رات کو وہی اجالا ناپسند ہوتا ہے اور آنکھوں میں چبھنے لگتا ہے۔ اسی بات کو رب العالمین اس طرح واضح کرتے ہیں۔
قُلْ اَرَاْیَتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ الَّلیْلَ سَرْمَدًا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَنْ اِلہ غَیْرُاللّٰہِ یَاتِیْکُمْ بِضِیَائٍ اَفَلاَتَسْمَعُوْنَ (سورۂ قصص آیت ۷۱)
غور تو کرو کہ اللہ تعالیٰ تم پر ہمیشہ کیلئے قیامت تک رات ہی رہنے دیتا تو اللہ کے سوا کون تمہیں روشنی فراہم کر سکتا تھا۔ پھر تم کیوں نہیں سنتے؟
اس کے بعد فرمایا:قُلْ اَرَایْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ النَّھَارَ سَرْمَدًا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَنْ اِلٰہ غَیْرُاللّٰہِ یَاْتِیْکُمْ بِلَیْلٍ تَسْکُنُوْنَ فِیْہِ اَفَلاَ تُبْصِرُوْنَ (سورۂ قصص آیت ۷۱)
غور تو کرو اگر اللہ تعالیٰ تم پر ہمیشہ کیلئے قیامت تک اسی طرح رہنے دیتا تو اللہ کے سوا تمہارے لئے کون رات فراہم کرتا کہ تم اس میں سکون حاصل کر سکو پھر تم کیوں نہیں دیکھتے؟