سورہ رحمن کی عظمت و افادیت
قسط نمبر 7
انسان کے جسم کی لمبائی چوڑائی اور اس کی اونچائی پر غور کیجئے کہ اس کو کس خوبصورتی کے ساتھ بنایا ہے۔ اس کا بدن ایسا ہی ہے کہ یہ سیدھا کھڑا بھی ہو سکتا ہے اس کو موڑ کو بیٹھا بھی جا سکتا ہے‘ اس کو سمیٹا بھی جا سکت اہے اور انسان سیدھا الٹا‘ دائیں بائیں کسی بھی طرح لیٹ سکتا ہے۔ انسان کے بدن کی ساخت اس کی شرافت اور عظمت کی نشانی ہے۔ اگر وہ دوسری مخلوقات کی طرح ہوتا تو وہ اپنی زندگی میں وہ کام نہیں کر سکتا تھا جو وہ اب کر گزرتا ہے۔ مثلاً اس کائنات میں اللہ کویاد کرنے کا بے مثال ذریعہ نماز ہے۔ اگر انسان کسی کیڑے مکوڑے کی طرح ہوتا تو رکوع نہیں کر سکتا تھا۔ اگر وہ اونٹ اور ہاتھی کی طرح ہوتا تو قیام کرنے میں دشواری ہوتی اور اگر وہ درختوں کی طرح جامد ہوتا تو قعدے میں جانا اس کے بس سے باہر ہوتا۔ موجودہ ساخت کی وجہ سے وہ اللہ کی عبادت بے مثال انداز میں کرتا ہے او رسب مخلوقات کی مثال اس نماز میں قائم کر کے اپنے اشرف اور عظیم ہونے کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔
جب وہ حالت قیام میں ہوتا ہے تو وہ درختوں کی طرح تن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ جب وہ حالت رکوع میں ہوتا ہے تو وہ چوپایوں کی طرح جھک کر دکھاتا ہے۔ جب وہ حالت سجدہ میں ہوتا ہے تو حشرات الارض اور کیڑے مکوڑوں کی طرح زمین سے گلے مل کر دکھاتاہے۔ جب وہ حالت قعود میں ہوتا ہے تو پہاڑوں کی سی صورت اختیار کر لیتا ہے تو انسانی بدن میں تمام مخلوقات کی صورت اختیار کرنے کی صلاحیت ہے۔ اسی لئے اس کو اشرف المخلوقات قرار دیاگیا ہے۔ یہ اپنے وجود کی وجہ سے بھی اشرف المخلوقات ہے اور اپنی صلاحیتوں اور کارناموں کی وجہ سے بھی اشرف واکمل مانا گیا ہے۔
انسان کے نظام پرورش کودیکھیں کہ قدرت نے اس کی نشوونما میں کس حکمت سے کام لیا ہے اس کے اعضاء کی پرورش غذا پرموقوف رکھی ہے اور غذا رسانی برابر جاری ہے لیکن خداوند قدوس نے اعضا کے بڑھنے کی ایک خاص مقدار رکھی ہے۔ اس مقدار کے بعد انسان کوئی بھی غذا استعمال کرے اس کا بڑھنا موقوف ہو جاتا ہے۔ اگر بڑھنا موقوف نہ ہوتا تو کس قدر بڑھ جاتا اور بدنما معلوم ہونے لگتا۔ اس لئے انسانی جسم ایک خاص مقدار کے بعد بڑھنا بند ہو جاتا ہے اور یہ بھی ایک کمال قدرت ہے۔
انسان کی تخلیق کے بعد کود حق تعالیٰ کا یہ فرمانا: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْم کہ ہم نے انسان کو بہت ہے خوبصورت پیمانے پر پیدا کیا ہے اور اس کو دوسری مخلوقات کے مقابلہ میں بہت ہی معتدل قدو قامت عطا کی ہے اور بہت ہی مخصوص انداز میں اس کو نشوونما بخشی گئی ہے جو افراط و تفریط سے پاک صاف ہے۔
بدن کے اندرونی اعضاء کو دیکھئے تو حیرت کی کوئی حد نہیں رہتی۔ دل‘ جگر‘ معدہ‘ تلی‘ پھیپھڑہ‘ رحم‘ مثانہ‘ گردے اور آنتیں یہ تمام چیزیں حیرت ناک طریقے سے فٹ کی گئی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک چیز کی شکل و صورت بھی ایک دوسرے سے جدا ہے اور ان سب کی کارکردگی بھی ایک دوسرے سے قطعاً مختلف ہے۔ معدہ کی بناوٹ سخت قسم کے مضبوط پٹھے سے کی گئی اور اس کو کھانا ہضم کرنے کیلئے بنایا گیا۔ یہ کھانے کو باریک کرکے ہضم کر لیتا ہے۔ پہلے یہ کھانا دانتوں اور ڈاڑھوں کے ذریعہ پستا اور باریک ہوتا ہے اس کے بعد مزید کارروائی معدہ کرتا ہے اور پھر اس کھانے کو ہضم کے قابل بنا کر اس کو ہضم کر لیتا ہے۔
جگر کا کام یہ ہے کہ وہ غذا کو خون کی شکل میں تبدیل کرتا ہے اور معدہ سے ہر عضو کے مطابق غذا حاصل کرتا ہے مثلاً ہڈیوں کے لئے ہڈیوں کے مطابق اور گوشت کے لئے گوشت کے مطابق تلی اور پتے کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے تاکہ وہ جگر کو تقویت پہنچا سکیں۔ تلی اور پتے جگر کو خراب ہونے سے محفوظ رکھتے ہیں اور ان دونوں کی مخصوص کارکردگی سے جگر اپنی حالت صحیح طور پر برقرار رکھتا ہے۔ مثانہ گردوں سے پانی حاصل کر کے اسے پیشاب کی نالی میں پہنچا دیتا ہے۔ رگیں بدن سے خون اٹھاتی ہیںاور بدن کے تمام اطراف میں اس خون کو پھیلاتی ہیں۔ رگیں گوشت کی محافظ ہیں۔ خدا کی قدرت کی صناعی دیکھئے کہ اس نے انسانی زندگی کی بقا کے لئے غذائیں پیدا کیں۔پھر ان غذائوں کو انسان کے جسم کے اندر داخل کرنے کے لئے اور انہیں جزو بدن بنانے کیلئے ایک منہ بنایا جس کے ذریعہ غذائیں انسان کے پیٹ میں داخل ہوتی ہیں۔ پھر ان غذائوں کو لذیذ بنایا تاکہ انسان ان کو کھاتے ہوئے اکتا نہ سکے۔ اگر غذائوں میں لذت نہ ہوتی تو کون اپنا منہ چلانا پسند کرتا۔ غذا انسان کے منہ سے گزر کر حلق تک پہنچتی ہے اور پھر معدہ میں منتقل ہو جاتی ہے۔ حلق کے ذریعہ معدہ تک پہنچانے کی صلاحیت وہ دانت اور ڈاڑھیں پیدا کرتی ہیں جو غذائوں کو مکسی کی طرح پیس کر باریک کر دیتی ہیں۔ اگر غذائیں باریک ہو کر معدہ تک نہیں پہنچتیں تو یہ ہضم کے قابل نہیں ہوتیں۔ غذا معدہ میں پہنچنے کے بعد ہضم ہو کر خون بن جاتی ہے پھر اس خون کی جو جگر کی کارروائی سے بنتا ہے گردے کسی معیاری فلٹر کی طرح اس کی صفائی کرتے ہیں اور اس میں سے گندے مادے کو الگ کرکے خونکو رگوں میں پھیلا دیتے ہیں۔ سب سے پہلے خون صاف ہو کر دل تک پہنچتا ہے پھر دل اس خون کو پورے جسم میں سپلائی کرتا ہے۔ کتنا عظیم الشان نظام ہے جو قدرت نے انسان کے بدن میں پیدا کیا ہے۔ اگر اس نظام کا ایک پرزہ بھی بگڑ جاتا ہے تو انسان کا پورا بدن بیکار ہو کر رہ جاتا ہے۔ علاوہ ازیں انسان کو حق تعالیٰ نے حواس خمسہ عطا کئے ہیں جو اس کی زندگی کے اندر حسن پیدا کرتے ہیں۔ یہ حواس خمسہ اگر نہ ہوتے تو انسان کی زندگی بے کیف رہتی۔ ان حواس خمسہ میں سے ایک حسن دیکھنے کی حس ہے۔ یعنی قدرت نے آنکھ پیدا کی جس کے ذریعہ انسان اس دنیا کے مشاہدات دیکھتا ہے اور ان سے لطف اندوز ہوتاہے۔ اندازہ کیجئے کہ اگر انسان کو حق تعالیٰ تمام خوبیوں سے نوازنے کے بعد صرف آنکھوں کانور اس سے چھین لے تو اس کی زندگی اندھیرا بن کر رہ جائے اس دنیا میں ہزاروں انسان ایسے ہیں جو بینائی سے محروم ہیں ان سے پوچھئے کہ آنکھوں کی دولت کیا ہوتی ہے اور اس دولت کے بغیر دنیا کی ہر دولت رکھنے کے بعد انسان کس قدر محروم ہوتا ہے۔ کیا گزرتی ہے اس کے دل پرجب وہ نہ اپنوں کو دیکھ سکتا ہے نہ غیروں کو زندگی تو کسی نہ کسی طرح گزر جاتی ہے لیکن ایک اندھے انسان کو اس دنیا میں کس طرح بھٹکنا پڑتا ہے اس کا صحیح اندازہ تو اسی کو ہوتا ہے جو بینائی سے محروم ہو۔ دوسری حس سننے کی حس ہے۔ یعنی قدرت نے دوسروں کی بات سننے کیلئے کان پیدا کئے۔ کانوں کے ذریعہ ہم اس دنیا کی آوازوں سے محظوظ ہوتے ہیں۔ جو لوگ اس دنیا میں قوت سماعت سے محروم ہیں ان سے پوچھئے کہ ان پر کیا گزرتی ہے۔ ایک بہرہ انسان جو نہ پیار کی آواز سن سکتا ہے نہ اپنائیت کی تو اس کے دل پر کیا گزرتی ہے۔ کانوں کی اہمیت صحیح طور پر وہی سمجھ سکتے ہیں جو بے چارے سننے کی صفت سے محروم ہوں۔
تیسری حس ذائقہ کی حس ہے۔ اس حس کے ذریعہ ٹھنڈے گرم کا میٹھے کڑوے کا اور تلخ و شیریں کا احساس ہوتا ہے۔ جن لوگوں کی یہ حس کسی وجہ سے ختم ہو جاتی ہے ان کی زندگی کا کیف ختم ہو جاتا ہے۔
1 Comment. Leave new
Thanks for your blog, nice to read. Do not stop.