سورہ رحمن کی عظمت و افادیت
قسط نمبر 6
حلق کے اندر نرخرہ بنایا گیا ہے اس نرخرہ کی وجہ سے انسان کے منہ سے نکلنے والی آوازوں کا زیرو بم قائم رہتا ہے اور مختلف قسم کی آوازیں منہ سے برآمد ہوتی ہیں جو باہر نکل کر مختلف انداز اختیار کر لیتی ہیں۔ چنانچہ جس طرح اس دنیا میں انسانوں کی شکلیں ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں اسی طرح ان کی آوازیں بھی مختلف ہوتی ہیں اور محض کسی انسان کی آواز سن کر اس کو پہنچانا جا سکتا ہے ہم تیپ ریکارڈر میں محفوظ کسی بھی آواز کو سن کر سمجھ لیتے ہیں کہ یہ آواز کس انسان کی آواز ہے۔
ہاتھوں کی ساخت دیکھئے۔ ایک ہاتھ میں ۴ انگلیاں اور ایک انگوٹھا اس طرح بنایا ہے کہ کسی بھی چیز کو پکڑنے میں آسانی رہے۔ چاروں انگلیاں سیدھی ہیں اور انگوٹھے کا رخ کچھ دائیں بائیں کو ابھرا ہوا ہوتا ہے۔ پھر انگلیاں سب برابر نہیں ہیں اگر سب انگلیاں برابر ہوتیں تو ہاتھوں کی خوبصورتی ختم ہو جاتی۔ ان کو چھوٹا بڑا بنا کر ہاتھوں کے حسن میں اضافہ کیا ہے۔ ہر انگلی اور انگوٹھے میں تین تین پورے اور حصے بنائے ہیں تاکہ ان کو موڑا جا سکے اوران سے کام کرنے میں آسانی رہے۔ ہتھیلی کی ساخت پر غور کیجئے کہ اس کو بنانے میں قدرت خداوندی نے کس حکمت عملی کو پیش نظر رکھا ہے۔
ہتھیلی کو چوڑا بنایا گیا ہے تاکہ اس سے دوسرے بھی کام کئے جا سکیں چنانچہ ہتھیلی پر رکھ کر انسان کسی بھی چیز کو پھانک سکتا ہے اس طرح انسان کی ہتھیلی پلیٹ اور طشتری کا بھی کام انجام دیتی ہے۔ انگلیوں کو اگر ہم کچھ بند کر لیں تو ہتھیلی ایک چلو کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور انسان اس چلو کی مدد سے پانی پی سکتا ہے۔ چنانچہ دوران سفر اگر انسان کے پاس کٹورہ یا گلاس نہ ہو تو وہ ایک ہاتھ سے نل چلا کر اپنے دوسرے ہاتھ کا چلو بنا کر پانی پی سکتا ہے اور اگر کسی نہر یا دریا سے پانی پینا ہو یا کسی دوسرے شخص سے نل چلا کر پانی پینا ہو تو دونوں ہاتھوں کا چلو بنا کر پانی پیا جا سکتا ہے۔ قدرت نے انسانی ہاتھوں کی ساخت اس طرح رکھی ہے کہ انسان دونوں ہاتھوں سے برتن کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ چنانچہ ہم کئی بار یہ دیکھتے ہیں کہ ایک ہاتھ پر روٹی رکھ کر انسان دوسرے ہاتھ سے روٹی کھا رہا ہے گویا کہ وہ ایک ہاتھ کو پلیٹ بنا کر روٹی کھاتا ہے کسی بھی دوسری مخلوق کے ہاتھوں میں یہ ساخت موجود نہیں ہے۔ ہاتھوں کی انگلیوں کو اگر ہم پوری طرح بند کر لیں تو اب یہ مکا بن جاتا ہے اور یہ ایک طرح کا دیسی ہتھیار ہے۔ یہ مگا اگر کسی انسان کے دانتوں پر مار دیا جائے تو اس سے دانت ٹوٹ سکتے ہیں۔ انگلیوں کے سروں پر ناخن بنائے گئے ہیں ان سے حفاظت بھی ہوتی ہے اور ان سے خوبصورتی بھی محسوس ہوتی ہے۔ اگر انگلیاں سپاٹ ہوں اور ناخنوں سے محروم ہوں تو ان کی خوبصورتی پامال ہو جاتی ہے۔ انسان ان ناخنوں سے کھجانے کا کام بھی لیتا ہے اگر خارش یا کھجلی ہو جائے توہم کسی دوسری چیز کے ذریعہ بھی کھجا سکتے ہیں لیکن جو مزا ناخن سے کھجانے میں آتا ہے وہ کسی دوسری چیز سے کھجانے میں نہیں آتا۔ قربان جائیے اللہ تعالیٰ کی قدرت پر کہ اس نے انسان کی ادنیٰ سی ضرورت کیلئے ناخنوں کو پیدا کر کے انسان کی عظمت کو محسوس کرایا اور جہاں تک انسان کے اپنے ہاتھ نہیں پہنچ پاتے وہاں کھجانے میں جو دشواری پیش آتی ہے وہ سب پر عیاں بیاں ہے۔
ٹانگوں کی ساخت پرغور کیجئے کہ ان کو کس طرح لمبا رکھا گیا۔ پھر اوپر سے ان کو چوڑا اور گوشت رکھا گیا اور نیچے پنڈلیوں کی طرف گوشت کم کر کے ہڈیوں میں اضافہ کیا گیا تاکہ کھڑا ہونے میں پریشانی نہ ہو۔ اگر اس کے برعکس ہوتا‘ گوشت کا حصہ نیچے آ جاتا اور ہڈیوں والا اوپر چلا جاتا تو اٹھنے بیٹھنے میں دشواری ہوتی اور چلنے پھرنے کا مزہ بھی ختم ہو جاتا۔ پیروں کے پنجے بڑے اور پھیلے ہوئے بنائے گئے تاکہ ان کی مدد سے انسان بہ آسانی زمین پر کھڑا ہو سکے۔ پیروں کی انگلیاں ہاتھوں سے مختلف بنائی گئیں۔ دراصل ہاتھوں اور پیروں کا کام بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ ہاتھوں سے پکڑنے کا کام لیا جاتا ہے اور پیروں سے چلنے اور دوڑنے کا‘ اس لئے دونوں کی مناسبت سے دونوں کی بناوٹ تخلیق کی گئی۔
انسان کے پورے ڈھانچے پر غور کیجئے۔ اس میں گوشت بھی ہے ہڈیاں بھی ہے۔ پھر ہڈیاں بھی مختلف قسم کی ہیں چھوٹی بڑی کھوکلی‘ ٹھوس‘ چوڑی‘ لمبی اور باریک طرح کی ہڈیاں انسان کے جسم کے اندر موجود ہیں۔ ان ہڈیوں سے انسان کا ڈھانچہ قائم رہتا ہے۔ اگر یہ ہڈیاں ٹوٹ جائیں یا جسم کے کسی بھی حصے کی ہڈی ٹوٹ جائے تو انسان کی زندگی تباہ ہو کر رہ جاتی ہے۔ مثلاً کسی انسان کے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ جائے تو نہ صرف یہ کہ اس کے ہاتھ کی خوبصورتی ختم ہو جاتی ہے بلکہ اس کے ہاتھ میں کام کرنے کی جو صلاحیت ہوتی ہے وہ فنا ہو جاتی ہے۔ اس لئے انسان کے جسم میں جس قدر بھی ہڈیاں ہیں ان کی اپنی اپنی جگہ ایک اہمیت ہے اور ہر ہڈی انسانی وجود کو برقرار رکھنے کا کام انجام دیتی ہے۔ مثلاً چہرے پر ہڈیوں کا ایک جال بچھوا ہوا ہے۔ اگر ایک ہڈی بھی ٹوت جائے یا چٹک جائے تو چہرہ بگڑ کر رہ جاتا ہے۔ اللہ کی قدرت دیکھئے کہ اس نے ان ہڈیوں کو جو مفید تر ہوتے ہوئے بالعموم بدنما ہوتی ہیں انہیں پرکشش اور خوبصورت بنانے کیلئے ان پر گوشت کی تہہ چڑھا دی ہے تاکہ ان کی بدنمائی کا احساس نہ ہو۔ اگر انسان کے چہرے پر گوشت نہ ہوتا تو ہڈیوں کی وجہ سے وہ کس قدر بدنما معلوم ہوتا۔ جب کسی انسان کے جسم کا گوشت کسی بیماری یا کمزوری یا عمر کی زیادتی کی وجہ سے ختم ہو جاتا ہے اور ہڈیوں کا ابھار محسوس ہونے لگتا ہے تو انسان کی خوبصورتی ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ گوشت کی موجودگی کی وجہ سے ہڈیوں کا عیب بھی چھپ جاتا ہے اور ہڈیوں کی حفاظت بھی ہوتی ہے۔
انسان کے جسم کو مفید ترین بنانے کیلئے انسان کے جسم میں مختلف جوڑ پیدا کئے گئے ہیں اگر یہ جوڑ نہ ہوتے تو انسان کے لئے کام کرنا کس قدر دشوار ہوتا۔ اگر کوئی جوڑ بھی متاثر ہو جاتا ہے تو انسان کو اپنی زندگی بے کیف محسوس ہونے لگتی ہے۔
اوپر سے نیچے تک دیکھئے کہ کس قدر جسم میں جوڑ ہیں اور ہڈیوں کی تعداد اور تقسیم کس قدر ہے کہ اسی تقسیم کی وجہ سے انسانی وجود کی عظمت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے اور اس کی بناوٹ کے اعتبار سے انسان کو اشرف ترین کہنا پڑتا ہے۔
انسانی سر کی ساخت بھی عجیب ہے۔ کسی بھی دوسری مخلوق کا سر ایسا خوبصورت اور معنی خیز نہیں ہے۔ یہ سر مختلف انداز کی ۵۵ ہڈیوں سے مل کر بنا ہے۔ یہ سب ہڈیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ ۶ ہڈیوں سے کھوپڑی بنی ہے۔ ۲۴ ہڈیوں سے اوپر کا جبڑا اور دو ہڈیوں سے نیچے کا جبڑہ بنا ہے۔ پھر سر کے دائیں بائیں اور پیچھے کے حصے میں کم و بیش ۲۳ ہڈیاں موجود ہیں جو انسانی سر اور چہرے کو تھامے ہوئے ہیں۔
گردن کے آخری حصے سے لے کر کولہے تک بھی ہڈیوں کا ایک جال بکھرا ہوا ہے۔ پھر پیٹھ‘ سینہ‘ مونڈھا‘ بازو‘ ٹانگ اور پنڈلیاں اور پائوں ان سب جسمانی حصوں کو ہڈیاں تھامے ہوئے ہیں۔ غرضیکہ انسان کا جسم تقریباً ۲۴۸ ہڈیوں سے مرکب ہے اور ہر ایک ہڈی کی بناوٹ دوسری سے جداگانہ ہے۔
ان ہڈیوں کی ساخت جچی تلی ہے۔ اگر ان میں سے کوئی ایک ہڈی ذرا سی چھوٹی ہو جائے یا ذرا سی بڑھ جائے تو انسان کی زندگی اجیرن بن کر رہ جائے۔ صرف ان ہڈیوں کی بناوٹ کا اگر انسان ادراک کر لے تو اس کو یقین ہو جائے کہ اس کا اپنا بدن اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے بھرا ہوا ہے۔یہ انسان اللہ کی کس کس نعمت کو جھٹلاسکتا ہے؟
غور کیجئے ہڈیوں کو حرکت دینے کے لئے پورے انسانی بدن میں پانچ سو انتیس عضلات پیدا کئے ہیں اور ہر ایک عضلے کی ترکیب گوشت پٹھوں اور جھلیوں سے ہوئی۔ پھر یہ سب شکل و صورت میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ہر ایک کو موقعہ و محل اور ضرورت کے مطابق شکل عطا کی گئی۔ ۲۴ عضلات تو صرف آنکھ اور اس کی پلکوں کی حرکت میںکارفرما ہیں۔ اگر ان میں سے کسی ایک کو بھی گھٹا دیا جائے یا کوئی ایک کسی وجہ سے متاثر ہو جائے تو آنکھ کا نظام درہم برہم ہو جائے۔ اسی طرح انسانی جسم کا ہر عضو خاص انداز میں عضلات رکھت اہے اور بغیر ضرورت کے کوئی ایک چیز بھی اور کوئی ایک عضلہ بھی پیدا نہیں کیا گیا ہے۔