سورہ رحمن کی عظمت و افادیت
قسط نمبر 5
قدرت نے ہونٹوں کو منہ کے لئے پردہ بنایا اور ایک ایسے دروازے کا ان ہونٹوں سے کام لیا جو مقصد پورا ہو جانے پر بند ہو جاتا ہے۔ ہونٹوں سے مسوڑھوں کی بھی حفاظت ہوتی ہے اور ان ہونٹوں سے انسان کے چہرے کی خوبصورتی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اگر ہونٹ نہ ہوتے تو انسان کا چہرہ بدنما سا لگتا۔ گفتگو کے دوران ہونٹوں کی حرکت آواز کے زیرو بم کو بہت اچھی طرح واضح کرتی اور گفتگو میں مٹھاس پیدا کرتی ہے۔ ہونٹوں کے اندر یعنی منہ کے اندر پیدا کردہ زبان نہ صرف یہ کہ انسان کے دل کی ترجمانی کرتی ہے بلکہ غذا کی لذت کو محسوس کراتی ہے۔
منہ کے اندر بتیس دانت پیدا کئے گئے۔ ان دانتوں سے ثقیل چیزوں کو چابنے کا کام بھی لیا جاتا ہے اور یہ دانت انسان کی ہنسی اور مسکراہٹ میں خوبصورتی پیدا کرنے کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ اگر منہ میں دانت نہ رہیں جیسا کہ بڑھاپے میں نہیں رہتے تو غذا کو چبانے میں دشواری پیدا ہوتی ہے اور ہنسنے ہنسانے کا مزا ختم ہو جاتا ہے۔ ان دانتوں کے ساتھ دونوں سائڈ میں داڑھیں بھی پیدا کی گئی ہیں جو غذا کو چبانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے منہ کے اندر ایک طرح کی تراوٹ رکھی ہے اوریہی تراوٹ غذا کو معدہ تک پہنچانے کا ذریعہ بنتی ہے۔ اگر منہ کے اندر لعاب دہن نہ ہوتا تو انسان کا منہ خشک ہو کر رہ جاتا اور اس کی خشکی کی وجہ سے بات چیت کرنے میں دشواری پیش آتی‘ اس لئے رب کائنات نے منہ کے اندر لعاب اور تراوٹ کو پیدا کیا اور یہ لعاب اور تراوٹ نہ صرف یہ کہ منہ کی خشکی کو دور کرتی ہے بلکہ اس لعاب دہن کی وجہ سے انسان مختلف امراض سے محفوظ رہتا ہے۔ چنانچہ طبی طور پر یہ ثابت ہے کہ منہ کے زخم‘ بغیر کسی دوا کے چند دنوں میں خود بخود ٹھیک ہو جاتے ہیں اور یہ سب لعاب دہن کا کرشمہ ہے کیوں کہ لعاب دہن بجائے خود ایک دوا ہے۔ اگر صبح کو اٹھ کر کوئی شخص اپنا لعاب دہن پھنسی پر لگا لے تو پھنسی دب جاتی ہے اور مزید پھولنے اور پھلنے نہیں پاتی۔
ہونٹوں اور مسوڑھوں سے دانتوں کی حفاظت کا کام لیا گیا ہے اور ہونٹوں سے چہرے کی خوبصورتی بھی بڑھ گئی ہے۔ اگر ہونٹ نہ ہوتے توچہرہ عجیب لگتا اور مسکرانے کا مزہ بھی ختم ہوجاتا۔ ان ہونٹوں کی موجودگی سے جہاں چہرے کی بناوٹ اچھی لگتی ہے وہیں زیر لب مسکرانے اور بات کرنے کا مزہ کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ مسوڑھوں سے ان دانتوں کی حفاظت ہوتی ہے جو ہنسنے کیلئے بھی ہیں اور غذا کو چبانے اور باریک کرنے کیلئے بھی۔ جن حضرات کے دانت نہیں رہتے ان کی زندگی کا مزہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ نہ وہ صحیح معنوں میں ہنس سکتے ہیں اور نہ ہی غذا سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ اللہ نے منہ میں زبان پیدا کر کے جو ۳۲ دانتوں کے بیچ ہوتی ہے اور غذا کا مزہ محسوس کرنے کا کام دیتی ہے اس کے ساتھ ساتھ اسی زبان کی بدولت انسان بات چیت کرتا ہے اور اپنے دل کی باتیں دوسروں تک پہنچاتا ہے یہی وجہ ہے کہ زبان کو دل کی ترجمان کہا جاتا ہے۔ دانتوں کے دائیں بائیں ڈاڑھیں پیدا کی گئی ہیں۔ یہ غذا کو باریک پیس کر حلق کے ذریعہ پیٹ میں پہنچاتی ہیں۔جب انسان کے منہ میں ڈاڑھیں نہیں رہتیں تو انسان کی تندرستی متاثر ہونے لگتی ہے کیونکہ پھر انسان غذا کو چاب کر نہیں کھاتا اور جب غذا بغیر چابے پیٹ میں جاتی ہے تو وہ ہضم نہیں ہوتی اور اس طرح نظام معدہ بگڑ کر رہ جاتا ہے رب العالمین کا فضل بیکراں ہے کہ اس نے غذا کو چابنے کیلئے مضبوط قسم کی ڈاڑھیں پیدا کیں جو کسی بھی اچھی مشین اور مکسی سے زیادہ غذا کو باریک کر دیتی ہیں اور غذا کو جزو بدن بنانے کے قابل بنا دیتی ہیں۔
دانتوں کی بناوٹ پر غور کیجئے کہ سب دانت ایک طرح کے نہیں ہیں۔ سامنے کے دانت کچھ بڑے ہیں پھر ادھر ادھر تک چھوٹے ہوتے چلے جاتے ہیں اس طرح سامنے کے دانت کسی بھی چیز کو توڑنے اور پھاڑنے میں انسان کی مدد کرتے ہیں اور انسان ان سامنے کے دانتوں کی بناوٹ کی وجہ سے بات کرتے ہوئے اور ہنستے ہوئے بھی اچھا لگتا ہے۔ ان دانتوں کی بناوٹ موتیوں کی کڑی معلوم ہوتی ہے اور یہ دانت اپنی خوبصورتی اور افادیت کی وجہ سے قدرت خدواندی کا ایک خاص عطیہ ہیں۔ زبان نہ صرف یہ کہ بولنے اور گفتگو کرنے کا بہترین آلہ ہے بلکہ یہ غذا کے مزے کومحسوس کرنے کا ایک بے نظیر ذریعہ بھی ہے۔ زبان کی نوک پر غذاکے لگنے سے اس کے سرد‘ گرم میٹھے اور پھیکے ہونے کا احساس ہو جاتا ہے۔ اگر یہ زبان نہ ہوتی تو انسان نہ بات چیت کر سکتا اور نہ ہی کسی غذا سے لطف اندوز ہوتا۔
کانوں کی حکمت پر غور کیجئے۔ یہ انسان کے چہرے کے دائیں بائیں عجیب انداز سے بنائے گئے ہیں ان کی موجودگی سے چہرہ اچھا لگتا ہے اور ان کی بناوٹ چہرے کو پرکشش بناتی ہے۔ ان کانوں کی وجہ سے انسان دوسروں کی بات کو سنتا ہے جو لوگ ان کانوں سے محروم ہوتے ہیں یا جو لوگ قوت سماعت سے محروم ہوتے ہیں ان کی زندگی خود اپنے لئے بھی اجیرن بن جاتی ہے اور یہ لوگ دوسروں کے لئے بھی مشکلات کھڑی کرتے ہیں۔ پھر ان کانوں میں عجیب طرح کی ایک رطوبت پیدا کی ہے کہ اگر کوئی کیڑا ان کانوں کے اندر چلا جائے توکچھ دیر کے بعد وہ اس زہہریلی رطوبت کی وجہ سے ختم ہو جاتا ہے۔ کان کے پردے بہت نازک ہوتے ہیں اس لئے ان کی حفاظت کیلئے کان کے اندر کے سوراخ اس طرح بنائے گئے ہیں جیسے پہاڑوں میں گھپائیں ہوتی ہیں۔ اگر یہ سوراخ سیدھا سادے ہوتے تو آئے دن ان میں کیڑے مکوڑے گھستے اور کانوں کے پردوںکو نقصان پہنچاتے۔
ناک بھی انسان کے چہرے کا ایک مخصوص حصہ ہے۔ اس ناک کی وجہ سے انسان خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔ ناک کی بناوٹ انسان کے حسن و جمال میں وجہ امتیاز بنتی ہے اور کسی بھی انسان کے چہرے پر جب نظر پڑتی ہے تو سب سے پہلے اس کی ناک پر نظریں جمتی ہیں۔ ناک مختلف انداز کی ہوتی ہیں چپٹی ابھری ہوئی ڈھلائوں دار جھکی ہوئی۔ ان ناکوں کی بناوٹ سے انسان کی شخصیت کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور اندازہ کرنے والے یہ اندازہ کر لیتے ہیں کہ یہ انسان کس طرح کا مزاج رکھتا ہے۔ ہر انسان اپنی ناک کو حد سے زیادہ اہمیت دیتا ہے اور اسی ناک کی بدولت عزت و ذلت کے مسائل کھڑے ہوتے ہیں۔ اس ناک سے خوشبو اور بدبو کا احساس ہوتا ہے ناک میں دو نتھنے بنائے گئے ہیں ان کے ذریعہ اندر کی ہوا باہر نکلتی ہے اور باہر کی ہوا اندر جاتی ہے۔ اسی ناک کی بدولت انسان سانس لیتا ہے اور اس کائنات میں زندہ رہتا ہے۔ وہ سانسیں جن سے انسانی حیات کا سلسلہ باقی رہتا ہے وہ سانسیں اسی ناک کی مرہون منت ہیں۔ انسان ناک کے ذریعہ ۲۴ گھنٹوں میں تقریباً ۳۰ ہزار مرتبہ سانس لیتا ہے۔ اس حساب سے ایک انسان اللہ کی پیدا کردہ ناک کے ذریعہ ایک مہینے میں نو لاکھ مرتبہ سانس لیتا ہے۔ اس حساب سے ایک انسان ایک سال میں ایک کروڑ آٹھ لاکھ مرتبہ سانس لیتا ہے اور اگر کسی وجہ سے سانس لینے میں دشواری پیدا ہو جائے تو انسان کی زندگی کا سلسلہ موقوف ہو جاتا ہے۔
قسط نمبر 4