سورہ رحمن کی عظمت و افادیت
قسط نمبر 3
اللہ تعالیٰ کی پیداکردہ نعمتوں سے استفادہ نہ کرنا بھی ایک طرح کی ناقدری ہے اور اس طرح کی ناقدری بھی انسان کو عبدیت اور بندگی کے اعلیٰ مقام سے گرا دیتی ہے۔ بلاشبہ حق تعالیٰ نے اس کائنات میں جو کچھ بھی پیدا کیا ہے وہ اپنے بندوں کو راحت پہنچانے کیلئے پیدا کیا ہے۔اس کائنات کی ہر بے جان اور جاندار چیز اس کے بندوں کی خدمت میںلگی ہوئی ہے۔ یہ کتنا بڑا انعام ہے؟ اس کائنات میں بے شمار چیزیں ایسی ہیں جو بطاہر کارآمد نہیں ہوتیں لیکن وہ بھی کچھ نہ کچھ افادیت رکھتی ہیں اور کچھ نہ کچھ بالواسطہ اللہ کے بندوںکو فائدہ پہنچاتی ہیں ان کو فائدہ پہنچانے والی چیزوں کا اندازہ صحیح معنوں میں اللہ کے بندوں کو بھی نہیں ہے اور بہت ساری ایسی چیزوں کا اندازہ انسانوں کو نہیں ہے جو خود بخود انسانوں کی خدمت میں لگی ہوئی ہیں اور اپنی موجودگی سے انسانوں کو زبردست فائدہ پہنچا رہی ہیں اور یہ بات بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ اس کائنات کی کوئی بھی مخلوق اور کوئی بھی شے عبث اور بے فائدہ نہیں ہے۔ زمین پر رینگنے والے کیڑے مکوڑے اور جنگلوں میں رہنے والے جنگلی جانور سب اپنی جگہ اہم اور مفید ہیں اور انسانوں کو براہ راست یا بالواسطہ فائدہ پہنچانے کی جو میں لگے ہوئے ہیں۔سورۂ رحمن میں تو کچھ ہی نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے لیکن اس وسیع و عریض کائنات میں نہ جانے اللہ کی پیدا کردہ کتنی نعمتیں ہیں کس کس نعمت کی مثال دیں۔زمین سے آسمان تک اور مشرق سے مغرب تک لاکھوں اور کروڑوں انعامات ہیں جو انسانوں کیلئے عطیۂ خداوندی ہیں لیکن یہ انسان حقیقتاً ناقدرا اور ناشکرا ہے اور اسی انسان کے مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے خالق کائنات نے اپنی پیدا کردہ نعمتوں اور راحتوںکاذکر کرنے کے بعد انسانوں سے یہ سوال کیا ہے کہ بتائو تو بھلا تم کس کس نعمت اور کس کس مفید چیزوں کی تکذیب و تردید کرو گے؟اس سورۃ کی ابتدا بھی عجیب و غریب انداز سے ہوئی ہے۔ فرمایا: الرحمن علم القرآن یعنی وہ ذات یقینا انتہائی رحم و کرم والی ہے جس نے انسان کو علم قرآن سے سرفراز فرمایا۔ اس کائنات کی دو چیزیں سب سے زیادہ اہم ہیں۔ ایک وہ نبی و رسول جو اللہ تعالیٰ کی طرف انسانوںکی رہنمائی کیلئے مبعوث ہوا ہو اور ایک وہ آسمانی کتاب جوانسان کی رشدو ہدایت کے لئے کسی رسول پر اتاری گئی ہو۔ پھر انبیاء اور رسولوں میں سب سے زیادہ مقدس اور محبوب ترین ہستی خاتم النبیین حضرت محمدﷺ کی ہے جو اس دنیا میں آخری پیغمبرکی حیثیت سے تشریف لائے اور جنہیں رحمت للعالمین کے خطاب سے رب العالمین نے سرفراز فرمایا اور آسمانی کتابوں میں سب سے زیادہ اہم کتاب قرآن حکیم ہے جو آخری کتاب کی حیثیت سے آخری رسول پر نازل کی گئی ۔ بلاشبہ وہ امت بھی خوش نصیب ہے جو محمدﷺ جیسی عظیم الشان ہستی کی نبوت و رسالت سے سرفراز ہوئی اور جس کے لئے آسمان سے قرآن حکیم جیسی رفیع الشان کتاب نازل کی گئی۔ یہ کتاب اپنی جلالت اور وجاہت کے اعتبار سے ایک بھاری بھرکم کتاب تھی لیکن اس کتاب کو امت مسلمہ کے لئے آسان کر دیا گیا۔ اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ انتہائی رحیم و کریم ہے وہ ذات گرامی جس نے امت محمدی کو قرآن مقدس کا علم عطا کیا یعنی اس قرآن کا علم عطا کیا جو اپنی جلالت اور اپنی عظمت کے اعتبار سے دنیا کی سب سے زیادہ عظیم الشان اور دنیا کی سب سے زیادہ رفیع المرتبت کتاب ہے اور اس کی جلالت اور بڑائی کا اندازہ اس بات سے کیجئے‘ جو خود باری تعالیٰ نے اسی قرآن میں ارشاد فرمائی ہے:
لَواَنْزَلْنَا ھٰذَالْقُرْآن عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہْ خَاشِعًا مُّتَصَدَِعًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللّٰہ وَ تِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُھَا لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکُّرُوْنَ
اگر ہم اتارتے یہ قرآن ایک پہاڑ پر تو تم دیکھ لیتے کہ وہ دب جاتا اور پھٹ جاتا اللہ کے ڈر سے اور یہ مثالیں ہم اس لئے سناتے ہیں لوگوں کو تا کہ وہ غور کریں۔ (سورۂ محنہ‘ آیت نمبر:۲۱)
اس آیت قرآنی سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن حکیم اس کائنات کی عظیم الشان نعمت ہے اس کی ہزاروں خصوصیات ہیں لیکن اس کی چار خصوصیات ایسی ہیں کہ جو انسانی علوم کی تمام خصوصیات پر غالب ہیں۔ اس قرآن حکیم کی ایک خصوصیت تو یہ ہے کہ کلام بلاشبہ رب العالمین کا کلام ہے اور اس کلام کو شبہات سے محفوظ رکھنے کیلئے رحمۃ للعالمین کو جو اس دنیا میں سب سے زیادہ عظیم الشان اور سب سے زیادہ علم و فہم رکھنے والے نبی اور رسول تھے انہیں امی رکھا گیا۔اگر محمد مصطفیﷺ لکھنے پڑھنے کے عادی ہوتے تو کفار و مشرکین کو یہ شبہ ہو سکتا تھا کہ یہ قرآن جس کو کلام الٰہی بتا کر پیش کیاجا رہا ہے کہ درحقیقت بذات خود محمدﷺ کا کلام ہے لیکن اس کی مقبولیت بڑھانے کیلئے اس کو خدا کا کلام بتا کر اہل عرب کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ محمد مصطفیﷺ کا امی ہو کر یہ کلام قلب محمدﷺ پر نازل ہوا ہے۔ قرآن و حدیث کا علم رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ قرآن اور حدیث کے متن میں واضح فرق ہے۔ بہت معمولی درجہ کا علم رکھنے والا طالبعلم بھی یہ سمجھ لیتا ہے کہ قرآن و حدیث کی زبان جداگانہ ہے۔
قرآن حکیم کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ فصاحت اور بلاغت کے اعتبار سے عربی کلام میں سب سے زیادہ ممتاز ہے اور عربی کلام کی بلاغتیں قرآن حکیم کی آیات کے سامنے پانی بھرتی نظر آتی ہیں چنانچہ جب کفارو مشرکین نے قرآن حکیم پر اعتراضات کئے اور جھٹلانے کیلئے مختلف پینترے بدلے تو اس وقت رب العالمین نے بذریعہ محمدﷺ لوگوں سے کہا کہ تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے تو تم ایسی ایک بھی سورت یا ایک ہی آیت بنا کر دکھا دو اور تم چاہو تو اس کام کے لئے عرب کے شعراء اور ادباء کی بھی مدد حاصل کرسکتے ہو۔چنانچہ اسلامی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ عربی زبان کے ماہرین کی ایک ٹولی نے ہر ممکن کوشش کر کے دیکھ لی لیکن وہ ایک آیت بھی قرآن حکیم کی آیات جیسی نہ بنا سکے اور اس طرح عہد نبوی ہی میں یہ بات مترشح ہو گئی کہ قرآن بلاشبہ اللہ کا کلام ہے اور اس کلام کی نظیر پیش کرنا عقلاً اور واقعتاً ناممکن ہے۔ علم قرآن کو دنیا کا سب سے زیادہ اہم علم بتایا گیا ہے اور حدیث میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ تم میں بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔ جہاں تک ثواب آخرت کا معاملہ ہے تو قرآن حکیم کو بغیر سمجھے پڑھنے میں بھی ثواب ملتا ہے۔ اگر کوئی شخص الم پڑھے گا تو اس کو تیس نیکیاں ملیں گی یعنی ایک حرف کے بدلے میں اس کو دس گنا نیکیاں عطا ہوں گی خواہ پڑھنے والا قرآنی حروف کے معانی سمجھتا ہو یا نہ سمجھتا ہو لیکن قرآن حکیم کے اندر علم و حکمت کے جو خزانے مدفون ہیں ان کا ادراک کرنا اور ان کی تہہ تک پہنچنا اس قرآن کے نزول کا اصل مقصد ہے۔ اگر قرآن کا بے سمجھے پڑھنا کافی ہوتا تو جگہ جگہ یہ ارشاد فرمانے کی ضرورت نہیں تھی کہ اس قرآن میں بے شمار نشانیاں ہیں۔ سوچنے والوں کیلئے اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لاَیَاتِ لِّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُوْنَ۔ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لاَیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ جیسی آیات بجائے خود یہ ثابت کرتی ہیں کہ قرآن حکیم کے نازل ہونے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کے بندے قرآنی علوم کی گہرائی میں جانے کی جدوجہد کریں اور اپنے خالق کی صناعی اور قدرت پر غوروفکر کریں اور اندازہ کریں کہ اس نے اس کائنات میں کیا کیا نعمتیں اور کیسی کیسی مخلوقات پیدا کی ہیں اور یہ تمام چیزیں خواہ وہ جاندار ہوں یا بے جان وہ سب کی سب انسان کی خدمت و ضرورت کیلئے پیدا کی گئی ہیں جو اس کائنات کا اصل منشاء ہے اور جس کی تخلیق کا مقصد محض عبادت اور بندگی ہے۔ گویا کہ انسان کے وجود کا مقصد ہے یاد خداوندی اور اظہار بندگی اور باقی تمام چیزوں کی تخلیق کا مقصد انسان کی خدمت ہے۔
اس حقیقت کا اندازہ صحیح معنوں میں اسی وقت کر سکتے ہیں جب کلام الٰہی کو سمجھ کر پڑھیں اور اسی بات کا اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیاہے کہ رحمن و رحیم کا سب سے بڑا کرم یہ ہے کہ انسان کو علم قرآن کی دولت سے سرفراز کیا۔ اس کے بعد یہ فرمایا گیاکہ خَلَقَ الْاِنْسَانَ عَلَّمَہُ الْبَیَانَ یعنی رحمن کی ذات وہ ذات گرامی ہے کہ جس نے انسان کو پیدا کر کے اس کو قوت گویائی عطا کی۔ اس دنیا میں جس قدر بھی مخلوق پیدا کی گئی ہے اپنی اپنی زبان میں وہ سب ہی بولتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کی بات چیت کو سمجھتے بھی ہوں گے۔ ان کا بولنا اگر بالکل ہی بے مطلب اور بے معنی ہوتا تو حضرت سلیمان علیہ السلام ان جانوروں کی بات چیت کو کیسے سمجھتے؟
قسط نمبر 2