سورہ رحمن کی عظمت و افادیت
قسط نمبر 24
اس سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ اس دنیا میں انسان جو کچھ بھی کرتا ہے اچھا یا برا۔ حق تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہوتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اگر کوئی بندہ سات پردوں میں یا سمندر کی گہرائی میں جا کر بھی کسی فعل کا مرتکب ہوگا تو حق تعالیٰ اس سے خبردار رہیں گے۔ قیامت کے دن سوالات صرف اس لئے ہوں گے تاکہ مجرمین کو یہ کہنے کا حق نہ رہے کہ ہمارے ساتھ زیادتی کی گئی اور ہم سے پوچھا تک نہیں گیا اور جو بندے اپنے افعال بد کے منکر ہوں گے ان کے اعضاء سے ان کی آنکھ‘ کان اور دیگر جسم کے حصوں سے گواہی لی جائے گی۔ اس کے بعد کسی سزا کا فیصلہ کیا جائے گا۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں یہ بات بہت آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہے۔ آپ کھلی آنکھوں سے یہ دیکھ سکتے ہیںکہ فلموں اور ڈراموں میں کام کرنے والے لوگ جب مر جاتے ہیں اور ان کی ہڈیاں تک گل سڑ کر مٹی میں مل کر مٹی بن جاتی ہیں وہ پردۂ فلم پر پھر زندہ نظر آتے ہیں۔ چلتے ہیں پھرتے ہیں‘ ہنستے ہیں بولتے ہیں‘ کھاتے پیتے ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی میں جو کردار ادا کئے تھے وہ کردار ان کی موت کے بعد حرکت کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی ایک ایک حرکت ان کے اچھے برے رول فلم کی ریل میں محفوظ رہتے ہیں اور انہیں بار بار دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ہر انسان کی ایک فلم فرشتے تیار کرتے ہوں گے جو قیامت کے دن بحکم خداوندی پیش کی جائے گی اور انسان کوا پنی زندگی کی فلم دیکھ کر یہ یاد آجائے گا کہ اس نے اپنی زندگی میں اچھے برے کیا کیا کارنامے اور کرتوت انجام دئیے۔ کتنی بار چوری کی‘ کتنی بار جوا کھیلا‘ کتنی بار زنا کیا‘ کتنی بار شراب پی اور کتنی بار اس نے اپنے رب کو یاد کرنے کیلئے نماز قائم کی غرضیکہ ہر اچھا اور برا کام اس فلم کی ریل میں کسی ریکارڈ کی طرح محفوظ ہوگا اور اس کو دیکھنے کے بعد اللہ کا کون بندہ اپنے کسی فعل بد کی تکذیب کر سکتا ہے؟
اور قرآن حکیم کی آیات کے مطابق تو حق تعالیٰ کو یہ قدرت بھی حاصل ہے کہ وہ انسان کے جسم کے اعضاء کو زبان کی طرح بولنے کی قدرت عطا کردے اور کان آنکھ اور ہاتھ پائوں بندے کی خطائوں اور غلطیوں کی تصدیق کریں گے اور مجرمین کو لاجواب کر دیں گے۔
قرآن حکیم کی آیات سے ہمیں اس بات کا اندازہ بھی ہوتا ہے کہ بروز محشر مجرمین کی شناخت ان کے چہروں سے بھی ہو جائے گی اور ان کے وہ چہرے دیکھ کر جو پھٹکار زدہ ہوں گے اور جن پر سیاہی لپیٹ دی گئی ہوگی مجرمین کی پہچان بن جائیں گے۔
سورۂ آل عمران میں فرمایا گیا:
یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّ تَسْوَدُّ وَجُوْہ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدْت وُجُوْھُھُمْ اَکَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ فَذُوْقُو الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ وَاَمَّا الَّذِیْنَ ابْیَضَّتْ وُجُوْھُھُمْ فَفِیْ رَحْمَۃِ اللّٰہ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْن
یعنی جس دن بعض چہرے سفید ہوں گے اور بعض چہرے کالے ہوں گے اس دن لوگوں سے پوچھا جائے گا جن کی صورتیں سیاہ ہوں گی کہ تم کیوں کافرہو گئے تھے ایمان لانے کے بعد؟اب تم عذاب چکھو اللہ کا اپنے کفرو شرک کی وجہ سے اور جن کے چہرے سفیداور نورانی ہوں گے وہ اللہ کی رحمت کے سائے میں ہوں گے اور ہمیشہ اللہ کی رحمت کے سائے میں رہیں گے۔
اس آیت سے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ کافروں اور مشرکوں سے یہ پوچھا جائیگا کہ وہ ایمان لانے کے بعد پھر کافر کیسے ہو گئے؟
اس کا ایک مطلب تو یہ ہو سکتا ہے کہ جولوگ ایمان لانے کے بعد ارتداد کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ یہ بات ان سے پوچھی جائے گی اور ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چوں کہ تمام کفرو مشرکین کسی نہ کسی نبی کی امت میں سے ہی تھے لیکن ان لوگوں نے اپنے نبی کی تعلیمات سے انحراف کر کے کفرو شرک کی راہ اختیار کی تھی اس لئے یہ سوال کیا جائے گا اور سب سے زیادہ قرین صواب بات یہ ہے کہ چونکہ اس دنیا کے تمام ہی انسانوں کو دین فطرت پرپیدا کیا جاتا ہے اور ہر بچہ درحقیقت دین اسلام کی دولت سے سرفراز ہوکر اس دنیامیں جنم لیتا ہے اس کے بعد اس کے ماں باپ اس کو یہودی نصرانی مجوسی یا مشرک بنا لیتے ہیں۔ چوں کہ ہر انسان کی فطرت میں دین اور اسلام شامل ہے اور ہر انسان کی تخلیق وحدانیت پر ہوتی ہے اس لئے اس سے یہ سوال کرنا کہ تم ایمان کے بعد کفر کی طرف کس طرح پلٹ گئے یا تمہیں دین فطرت سے گمراہی اور شرک و شیطنت کی طرف کس طرح جھوڑ دیا گیا ایک حق بجانب سوال ہے اور اس کا جواب وہ لوگ نہیں دے سکیں گے جومجرم ہوں گے اور جن کے لئے عتاب الٰہی مقدر ہو چکا ہوگا۔ بہرکیف میدان حشرمیں انسانوںکے چہرے خود ہی یہ ثابت کر رہے ہوں گے کہ کون مجرم ہے اورکون رحمت خداوندی کے سائے میں ہے۔
سورۂ اسراء میں فرمایا گیا:وَنَحْشُرُ ھُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلٰی وُجُوْھِھِمْ عُمْیًا وَّ بُکْمًا وَّ صُمًا اور ہم قیامت کے دن (مجرمین کو) منہ کے بل چلائیں گے اور انہیں اندھا گونگا بہرا بناکر اٹھائیں گے۔
سورۂ طٰہٰ میں فرمایا گیا: وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِیْنَ یَوْمَئِذٍ رَزقًا یَّتَخَافُتُونَ بَیْنَھُمْ۔ ہم قیامت کے دن مجرمین کو اس طرح جمع کریں گے کہ ان کی آنکھیں نیلی ہوں گی اور وہ آپس میں (اپنی بربادی پر) سرگوشیاں کر رہے ہوںگے۔
اس طرح کی صورتحال سے کھل کر واضح ہو جائے گا کہ اللہ کے نافرمان بندے کون ہیں اور اس کے فرمانبردار بندے کون۔ اللہ جن سے ناراض ہوگا ان کے چہروں پر پھٹکار ہوگی وہ سیاہ رات کی طرح تاریک ہوں گے اور ان کے چہروں سے وحشت اور سیاہی ٹپک رہی ہوگی اور حد یہ ہے کہ وہ نہ بولنے پر قادر ہوں گے نہ سننے پر اور نہ دیکھنے پر۔ عجیب وحشت ناک منطر ہوگا جو ان کی بربادی اور ہلاکت کو ثابت کر رہا ہوگا۔ اس کے برعکس کچھ لوگ ایسے ہوں گے کہ ان کے چہروں پر نور ٹپک رہا ہوگا اور ان کے چہرے ماہتاب و آفتاب کی طرح چمک رہے ہوں گے اور انہیں دیکھ کر یہ اندازہ ہو جائے گا کہ ان کا رب ان سے راضی ہے۔
چنانچہ سورۂ رحمن کی اگلی آیت میں یہ فرمایا گیا:یُعْرَفُ الْمُجُرِمُوْنَ بِسِیْمٰھُمْ فَیْوخَذُ بِالنَّوَاصِیْ وَالْاَقْدَامِ فَبِاَیِّ الاَئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَان۔قیامت کے دن مجرم لوگ اپنے چہروں سے پہچان لئے جائیںگے اور ان کے بال اور پائوں پکڑ کر لے جایا جائے گا۔ پھر تم اپنے رب کی کس کس حقیقت کو جھٹلائو گے؟
اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ میدان حشر میں نافرمان لوگوں کی بہت درگت بنے گی ان کے ساتھ فرشتے ذلت آمیز سلوک کریں گے اور انہیں مجرمین اور سرکش لوگوں کی طرح گھسیٹ کر دوزخ کی طرف دھکیلا جائے گا اور ان کی شکلوں پر ایسی وحشت برس رہی ہوگی کہ دیکھنے والے بھی خوفزدہ ہوں گے اور ان لوگوں کا وہاں کوئی مددگار نہیں ہوگا۔
اگلی آیت میں فرمایا گیا: ھٰذِہٖ جَھَنَّمُ الَّتِیْ یُکَذِّبُ بِھَا الْمُجْرِمُوْن یَطُرْفُوْنَ بَیْنَھَا وَبَیْنَ حَمِیْمٍ ان فَبِاَیِّ الاَئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَان۔ یہ ہے وہ جہنم جس کو لوگ جھٹلاتے تھے اور اس وقت یہ مجرم لوگ دوزخ کے کھولتے ہوئے پانی کے اردگرد دورہ کر رہے ہوں گے‘ پس تم اپنے رب کی کس کس نشانی کو جھٹلائو گے؟
22قسط نمبر