سورہ رحمن کی عظمت و افادیت
قسط نمبر22
اس کے بعد فرمایا:
فَاِذَانْشَقَّتِ السَّمَائُ فَکاَنَتْ وَرْدَۃً کَالدِّھَانِ فَبِاَیِّ الاَئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَان
اور جب آسمان پھٹ جائے گا تو ایسا ہو جائے گا جیسے سرخ چمڑا‘ آخر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے۔
قیامت کے دن زمین کے چیتھڑے بکھر جائیں گے اور آسمان پھٹ کر سر خ چمڑے کی طرح ہو جائے گا‘ اس دہشت ناک منظر کو پہلے ہی سے بیان ک ردیا گیا ہے تاکہ عبرت حاصل کرنے والوں کا ذہن بیدار ہو جائے اور آخرت کے لئے روزینہ تیار کر لے اور آخرت کا روزینہ اور زادراہ اعمال صالحہ ہیں۔ اپنے بندوں کو ایک خطرناک وقت اور ایک ہیبت ناک گھڑی سے آگاہ کردینا بجائے خود ایک نعمت ہے اور یہ بھی دیگر انعامات خداوندی کی طرح بہت اہم ہے اور قابل قدر ہے۔
حق تعالیٰ نے اس پیشگی اطلاع کو اپنے انعامات کی فہرست میں شامل کر کے اپنے بندوں سے یہ سوال کیا ہے کہ تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے؟
بے شک اس نے ہمیں پیدا کر کے ہم پر احسان عظیم کیا ہے۔ یہ زندگی جو ہمیں میسر ہے اس کا قیمتی عطیہ ہے۔ اس نے ہمیں ذی نفس بنایا ہے‘ اس کا کرم ہے اگر ہمیں وہ مٹی کا ڈھیلا بنا کر پیدا کر دیتا تو ہم دنیا کی ٹھوکروں میں رہتے لیکن اس نے ہمیں جاندار مخلوق بنا کرپیدا کیا‘ اس کی ذرہ نوازی ہے۔ پھر جاندار مخلوق میں اس نے اہمیت دی اور اشرف المخلوقات بنایا۔ اگر وہ ہمیں بلی‘ بندر‘ کتا‘ بچھو‘ سانپ‘اژدہا وغیرہ یا کچھ اور بنا کر دنیامیں بھیج دیتا تو ہم کیا کر سکتے تھے۔ ہمارا شمار جانوروں میں ہوتا اور ہم بے مقصد زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے۔ اس کا کرم ہے کہ اس نے ہمیں زندگی بخشی اور ہمیں آدمؑ کی اولاد میں شامل کیا اور یہ بھی اس کا کرم ہے کہ اس نے ہمیں صاحب ایمان بنایا۔ اگر وہ ہمیں انسان تو بنا دیتا لیکن کفارو مشرکین میں ہمارا شمار کر دیتا تو ہم کیا کر سکتے تھے۔ ایک دن ہم مر جاتے اور دوزخ کا ایندھن بن جاتے۔ اس کا کرم ہے کہ اس نے ہمیں وجود بخشا اورایمان کی دولت سے ہمیںسرفراز کیا اور اس کا سب سے بڑا کر میہ ہے کہ اس نے ہمیں امت محمدیﷺ میں شامل کیا۔ اس محمدﷺ کی امت میں جس پر قرآن حکیم جیسی دولت نازل ہوئی اور جس قرآن نے قیامت سے پہلے ہی قیامت کا سارا منظر کھول کر بیان کر دیا تاکہ ہم اپنے اعمال کا سدھار کر لیں اور اس وقت کی تیاری کر لیں جب آسمان پھٹ کر روئی کے گالوں کی طرح اڑا اڑا پھرے گا۔ جب زمین کی دھجیاں بکھر جائیں گی‘ جب مجرموں پر آگ کے شعلے برسیں گے اور جب ایک اذیت ناک دھواں انسانوں کے لئے وجہ مصیبت بن کر رہ جائے گا۔ اس خدا کا کتنا بڑا انعام ہے کہ اس نے ان باتوں کی پہلے ہی سے ہمیں اطلاع دے دی اور پہلے ہی سے ہمیں ایسے حالات سے خبردار کر دیا جو تمام مجرمین کے لئے عتاب الٰہی کا پیش خیمہ بن کر سامنے آئیں گے اور نہیں دیکھ کر اچھے اچھوں کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے۔ مجرمین کو سزا دینا بھی فرماں برداروں کے لئے ایک بہت بڑا انعام ہے کہ ان کو سزا سے اور رسوائی سے محفوظ رکھا گیا۔ ہم صاحب ایمان لوگ حق تعالیٰ کی ان نعمتوں کی کس منہ سے تکذیب کر سکتے ہیں اور کس زبان سے ان نعمتوں کو جھٹلا سکتے ہیں جو قدم قدم پر ہمیں بصیرت انسانی اور خوبصورت معانی اور بصورت آگاہی عطا ہوئی ہیں۔
اس کے بعد فرمایا گیا:
فَیَوْمَئِذِ لاَّ یُسْئَلْ عَنْ ذَنْبِہٖ اِنْسً وَّلاَ جاَنَّ فَبِاَیِّ الاَّئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّباَن
یعنی قیامت کے دن کسی جن یا انسان سے اس کے گناہوں کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا جائے گا۔ سو تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے۔
بزرگوں نے فرمایا ہے کہ مجرمین سے کبھی سوال تحقیق حال کیلئے ہوتا ہے کیونکہ پوچھنے والے کو پوری صورتحال معلوم نہیں ہوتی تو اسے بتانے اور جتانے کے لئے ہوتا ہے اور اس کو اس کے جرائم کا احساس دلانے کیلئے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو سب کچھ جانتا ہے وہ بلاشبہ پہلے ہی سے علیم و خبیر ہے اس سے بندوں کی کوئی بھی بات پوشیدہ نہیں ہے بلکہ وہ تو اپنے بندوں کو پیدا کرنے سے پہلے ہی اپنے بندوں کے احوال سے باخبر ہے۔ جو بھی بندے قیامت کے دن بحیثیت مجرمین حاضر ہوں گے انکے جرائم رب العالمین پر پہلے ہی سے واضح اور منکشف ہیں۔ ان سے کسی بارے میں تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان سے پوچھنے کا مطلب تو محض اس لئے ہوگا کہ وہ مجرمین کو مطمئن کر سکے اور یہ ثابت کر سکے کہ ان کے ساتھ کوئی ظلم اور زیادتی نہیں ہو رہی ہے اور ان کے بارے میں سزا کا جو بھی فیصلہ کیا جانے والا ہے وہ بھی ایک طرح کا انصاف ہے۔
اسی طرح کی ایک آیت سورۂ اعراف میں بھی ہے۔ فرماتے ہیں:
فَلَنَسْنَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْھِمُ وَلَنَسْنَلَنَّ الْمُرْسَلِیْن
اس طرح مجرمین کے اعضاء ان گناہوں کی تصدیق از خود کریں گے جن میں وہ مبتلا رہتے تھے اور اپنے ہاتھ پائوں کو بھی مبتلا کرتے تھے۔ اسی بات کو ذرا پھیلا کر سورۂ حٰمٓ سجدہ میں بیان کیا گیا ہے۔
یَوْمَ یُحْشَرْ اَعْدَآئَ اللّٰہِ اِلَی النَّارِ فَھُمْ یُوْزَعُوْن حَتّٰی اِذَا مَاجَائُ وُھَاشَھِدَ عَلَیْھِمْ سَمْعُھُمْ وَاَبْصَارُھُمْ وَجُلُوْدُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْن وَقَالُوْا لِجُلُوْدِھِمْ لِمَ شَھِدْ تُمْ عَلَیْنَا قَالُوْا اَنْطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِیْ اَنْطَقَ کُلً شَیْ ئٍ وَّھُوَ خَلْقُکُمْ اَوَّلَ مَرٌۃٖ وَّاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ
اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ قیامت کے دن ہم جمع کریں گے ان لوگوں کو جو اللہ کی نافرمانی کا اظہار کر کے حق جل مجدہ کے ساتھ دشمنی اور عداوت کا مظاہرہ کیا کرتے تھے اور دین الٰہی کی مخالفت میں کمربستہ رہا کرتے تھے۔ ان کو دوزخ میں جمع کیا جائے گا اور ان کی نافرمانی اور غداری کے اعتبار سے ان کی جماعتیں بنا دی جائیں گی اور جب یہ مجرمین دوزخ کے دروازوں تک پہنچ جائیں گے تو ان کی آنکھیں اور ان کے جسم کی کھال بولنے لگے گی اور ان افعال کی تصدیق و توثیق کر دے گی جن میں وہ عمر بھر مبتلا رہے تھے اس وقت مجرمین کوحیرت بھی ہوگی اور افسوس بھی اور وہ فرط غضب میں اپنے جسم کی کھال سے یہ سوال کریں گے کہ تم نے حقائق سے پردہ کیوں ہٹایا اور ہمارے گناہوں کی پول کیوں کھولی؟ اس وقت جسم کے اعضاء بولیں گے اللہ نے ہمیں بولنے کی اور بات کرنے کی قدرت عطا کی اور اسی نے اس دنیا کی ہر مخلوق کو بات کرنے کی صلاحیت بخشی تھی۔