سورہ رحمن کی عظمت و افادیت
قسط نمبر 2
سورۂ رحمن کو قرآن حکیم میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اس سورۃ کو قرآن حکیم کی دلہن قرار دیا گیا ہے۔ سورۂ رحمن مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ اس سورۃ میں ۷۸ آیات ہیں اور یہ سورۃ تین رکوع پر مشتمل ہے۔ اس سورۃ کا ایک خاص انداز بیان ہے جو پڑھنے اور سننے والے کو بہت ہی دل نشین لگتا ہے۔ اس سورۃ میں دنیا اور آخرت کی نعمتوں کا تذکرہ عجیب وغریب انداز سے کیا گیا ہے اور ہر ہر نعمت کے بعد رب العالمین نے اپنے بندوں کو مخاطب کر کے یہ فرمایا ہے کہ تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے؟
اس سورۃکا انداز بیان اس قدر دلکش ہے کہ بار بار اس کی تلاوت کو دل چاہتا ہے اور کتنا بھی پڑھ لو طبیعت سیر نہیں ہوتی‘ اسی دل نشین اور دلکش بیان کی بنا پر اس سورۃ کو زینت قرآن کا نام دیا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت علیؓ کی روایت ہے کہ سرکار دو عالمﷺ نے فرمایا کہ ہر چیز کی ایک زینت ہوتی ہے اور قرآن حکیم کی زینت سورۂ رحمن ہے۔ سورۂ رحمن کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ اس سورۃ کے اندر ’’اسم اعظم‘‘ بھی موجود ہے اور وہ اسم اعظم ’’ذُوالْجَلاَلِ وَالْاِکْرَام‘‘ ہے۔ بعض اکابرین کی رائے یہ ہے کہ اس اسم اعظم کو کثرت سے پڑھنے کے بعد اگر کوئی شخص اللہ سے دعا کرے گا تو اس کی دعا قبول کی جائے گی۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ سرکار دو عالمﷺ نے کسی شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا:یَاذَاالْجَلاَلِ وَاْلاِکْرَام تو آپ نے فرمایا: مانگ لے اللہ سے جو چاہے تیری دعا قبول کی جائے گی۔
اس سورۃ کی شروعات ’’اسم الرحمن‘‘ سے ہوتی ہے۔ الرحمن حق تعالیٰ کا صفاتی نام ہے اور یہ نام دوسرے ناموں کے مقابلے میں بہت خصوصیات کا حامل ہے۔ حق تعالیٰ کے ذاتی نام ’’اللہ‘‘ کے بعد سب سے زیادہ خصوصیات اسم ’’یارحمن‘‘ کو حاصل ہیں۔ یہ نام بھی صرف پروردگارعالم کیلئے مخصوص ہے۔ دنیا میں کسی بھی رحم وکرم کرنے والے انسان کو رحیم یا کریم تو کہا جا سکتا ہے لیکن اس کو ’’رحمن‘‘ کہنا جائز نہیں ہو سکتا۔ دراصل رحمن میں رحیم و کریم کے مقابلے میں زیادہ مبالغہ ہے اور اس مبالغہ کی حقدار صرف وہ ذات گرامی ہے جس نے اس کائنات کو پیدا کر کے اس کائنات کی ایک ایک مخلوق پر رحم و کرم کرنے کا وعدہ بھی فرمایا ہے۔
بعض علماء نے فرمایا ہے کہ رحمن و رحیم کے معنی میں یہ فرق ہے کہ رحمن کے معنی یہ ہیں کہ اللہ دنیا میں مسلمان اور کافر سبھی کے ساتھ رحم کرنے والا ہے اور رحیم کے معنی یہ ہیں کہ اللہ آخرت میں صرف ان لوگوں پر رحم کرے گا جو دنیا میں اس کے اطاعت گزار رہے ہوں۔
حضرت عبداللہ ابن مبارکؒ فرماتے ہیں کہ رحمن وہ ذات گرامی ہے کہ جب اس سے سوال کیا جائے تو وہ عطا کرے اور رحیم وہ ذات ہے کہ جب اس سے نہ مانگا جائے تو وہ غضبناک ہو۔
امام سعدیؒ فرماتے ہیں کہ رحمن وہ ذات ہے جو مصائب و تکالیف کو دور کرتی ہو اور رحیم وہ ذات ہے جو گناہوں کی بخشش کرنے والی ہو۔ بہرحال رحمن میں مبالغہ بہر اعتبار زیادہ ہے۔رحمن کا رحم و کرم غیر محدود ہے اور رحیم کا رحم و کرم محدود ہے اور صرف اطاعت کرنے والوں کے لئے ہے۔ رحمن میں ربوبیت کی شان بہ نسبت رحیم کے زیادہ پائی جاتی ہے۔ یہ صرف سمجھانے کا مثالی انداز ہے ورنہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جو ہمارا رب ہے وہی رحیم ہے‘ وہی رحمن ہے‘ وہی خالق ہے اور وہی رزاق ہے۔ سورۂ رحمن کی شروعات اسم ’’الرحمن‘‘ سے ہوئی ہے۔ قرآن کی تین سورتیں حق تعالیٰ کے صفاتی نام سے شروع ہوتی ہیں ان میں سے ایک سورۂ نور ہے جو اٹھارہویں پارے میں ہے۔ دوسری سورۂ مومن ہے جو پچیسویں پارے میںہے اور تیسری سورۃ‘ سورۂ رحمن ہے جو ۲۷ ویں پارے میں ہے۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ حق تعالیٰ نے اس کائنات کو چھ دن میں پیدا فرمایاہے۔فِیْ سِتَّۃِ اَیَّام اور سورۂ رحمن میں کل آیات ۷۸ ہیں اور ۷۸ کا مفر و عدد ۶ آتاہے۔اگر ہم اس چھ (۶) کو ۷۸ کے شروع میں رکھ دیں تو ۷۸۶ بنتا ہے۔ ۷۸۶ بسم اللہ الرحمن الرحیم کے کل اعداد ہیں‘ اسم رحمن کا مرکب عدد ۱۹ ہوتا ہے اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کے حروف بھی ۱۹ ہی ہیں۔ اعدادی طور پر حق تعالیٰ نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس کائنات کی کل نعمتوں کا خالق وہی ہے جو اپنے بندوں کے لئے رحیم بھی ہے اور رحمن بھی۔ سورۂ رحمن میں حق تعالیٰ نے اپنی بے شمار نعمتوں کا تذکرہ کیا ہے اور ہر نعمت کا ذکر کرنے کے بعد خاص انداز میں انے بندوں سے یہ سوال کیا ہے کہ تم اللہ کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے؟
حضرت جابرؓ راوی ہیں۔ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ ایک د ناصحاب کی مجلس میں تشریف لائے اور سورۂ رحمن کی شروع سے اخیر تک تلاوت فرمائی۔ تمام صحابہ خاموشی کے ساتھ رسول کریمﷺ کی تلاوت سنتے رہے۔ ختم سورۃ پر رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ تم انسانوں سے بہتر جنات ہی رہے کہ میںنے جب بھی فَبِاَیِّ الاَئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَان پڑھا تو جنات نے کہا لابِشَیً ئِ مِّنْ نِعْمَتِکَ رَبَّنَا تُکَذِّبُ فَلَکَ الْحَمْدُ یعنی اے پروردگار ہم تیری نعمتوں میں سے کسی بھی نعمت کو نہیں جھٹلاتے۔ تیرے ہی لئے تمام تعریفیں سزاوار ہیں۔
اس دنیا میں انسانوںکا ایک بہت بڑا طبقہ تو وہ ہے جو اللہ کی نعمتوں کی تکذیب کرتا ہے۔ تکذیب اس معنی کر کہ وہ ان نعمتوں کی نسبت اللہ کے سوا دوسری ذاتوں کی طرف کرتا ہے یا پھر ان نعمتوں کی محض اپنی کاوشوں کا صلہ سمجھ کر ان کی شان گھٹاتا ہے اور اس دنیا میں انسانوں کا ایک طبقہ وہ بھی ہے جو اگرچہ اللہ کی نعمتوں کی تکذیب تو نہیں کرتا البتہ ان نعمتوں کو ناقدری ضرور کرتا ہے اور ناقدری بھی تکذیب ہی کے ہم معنی ہے۔ ناقدری ہی کو کفران نعمت کہتے ہیں اور کفران نعمت کرنے والے اتنے ہی بڑے گناہ گار اور نافرمان ہیں جتنے بڑے گناہگار اور نافرمان وہ لوگ ہیں جو اللہ کی پیدا کردہ نعمتوں کو جھٹلاتے ہیں۔
قسط نمبر 1