سورہ رحمن کی عظمت و افادیت
قسط نمبر 19
سورۂ رحمن میں اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ یہ ساری کائنات اس کائنات کی ساری مخلوقات بلکہ وہ ساری مخلوق جو آسمانوں میںآباد ہے وہ بھی اپنے مسائل اپنے رب کے حضور ہی رکھنے کی پابند ہے اور حق تو یہ ہے کہ اگر اس کے دربار سے کسی کو کچھ ملنے کا فیصلہ ہو جائے تو کسکی مجال ہے کہ وہ اس شخص کو محروم کر سکے اور اگر اس کے دربار سے کسی کو محروم رکھنے کا فیصلہ ہوجائے تو کون اس شخص کو کچھ عطا کر سکتا ہے۔ اسی بات کو قرآن حکیم میں بایں الفاظ فرمایا گیا۔
وَاِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلاَ کَاشِفَ لَہٌ اِلاَّھُوَ وَاِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلاَ رَادً لِفَضْلِہٖ
اگر اللہ پہنچانا چاہے تمہیں کوئی تکلیف تو پھر کوئی نہیں ہٹا سکتا اس تکلیف کو ماسوا اللہ ہی کے اور اگر ارادہ کر لے تمہارے ساتھ بھلائی کرنے کا تو پھر کوئی نہیں روک سکتا اس کے فضل کو۔
بلاشبہ حق تعالیٰ اگر کسی کو عطا کرنا چاہیں تو ساری دنیا کی طاقتیں مل کر بھی اس شخص کو محروم نہیں کر سکتیں اور حق تعالیٰ کسی کو محروم رکھنا چاہیں تو دنیا بھر کی طاقتیں مل کر بھی اس کو کچھ عطا نہیں کر سکتیں۔
اسی حقیقت کو سورۂ فاطر میں کچھ انداز بدل کر یوں فرمایا گیا۔
وَالَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مَایَمُلِکُوْنَ مِنْ قِطْمِیْر
اور جن کو تم پکارتے ہو خدا کا در چھوڑ کر وہ ایک کھجور کی گٹھلی کے بھی مالک نہیں ہیں۔ بعثت اسلام کے وقت مشرکین اپنے بتوں کے سامنے ان کی پرستش کر کے ان سے دعائیں مانگا کرتے تھے۔ ان کو مخاطب کر کے حق تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ تم اللہ وحدہ لا شریک کا در چھوڑ کر جن جھوٹے معبودوں کو اپنا مستعان سمجھ رہے ہو اور ان کے سامنے اپنی ضروریات اور خواہشات کا اظہار کر رہے ہو وہ تمہاری مدد کیسے کریں گے وہ تو خود ایک کھجور کی گٹھلی کے بھی مالک نہیں ہیں۔ آج کل کے وہ مسلمان جو مزارات پر یادگار ہوں پر اپنا دامن پھیلا رہے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ کے سوا بھی ان کی مرادیں کسی اور جگہ سے پوری ہو سکتی ہیں انہیں بھی قرآن حکیم کی اس آیت سے سبق لینا چاہئے۔ بہر کیف سورۂ رحمن میں اس حقیقت کو اجاگر کیا گیا ہے کہ زمین و آسمان کی کل مخلوقات بالخصوص وہ مخلوقات جو اللہ کے معبود ہونے‘ مالک و ازق ہونے اور مستعان ہونے کا یقین رکھتی ہے وہ اسی کی بارگاہ میں اپنا دامن پھیلاتی ہیں اور اس سے مدد اور نصرت کی طالب ہوتی ہیں۔
اس حقیقت کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ سورۂ رحمن میں یہ بھی فرما دیا گیاہے کہ کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَان کہ رب العالمین کی ہر دن اور ہر وقت ایک نئی شان ہے۔ رب العالمین اپنی مخلوقات کے لئے کبھی کسی شان کا اظہار کرتا ہے اور کبھی کسی شان کا۔ ہر دن اور ہر وقت اس کی صرف ایک ہی شان قدرت کا ظہور نہیں ہوتا بلکہ اس کی سان قدرت دنوں اور گھنٹوں کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اکابرین نے فرمایا ہے کہ دعائوں کی مقبولیت کے بھی اوقات ہوتے ہیں۔ ہر دن اور ہر وقت ایک جیسا مبارک نہیں ہوتا۔
دعائوں کی مقبولیت کے لئے بزرگوں نے کچھ اوقات یہ لکھے ہیں۔
رات کا پچھلا وقت‘جمعہ کی شب‘ جمعہ کے دن دونوں خطبوں کے درمیان کا وقت‘ عصرو مغرب کے درمیان کا وقت‘ شب قدر‘ شب برات‘ شب معراج‘ اذان کے وقت‘ اقامت کے وقت‘ جہاد فی سبیل اللہ میں صف بندی کے وقت‘ فرض نماز کے بعد بحالت سجدہ‘ بحالت سجدہ ختم قرآن کے موقع پر‘ عرفہ کے دن‘ بیت اللہ پر پہلی نظر پڑتے وقت‘زمزم پیتے وقت‘ افطار کے وقت‘ طواف کے دوران روضۂ اقدس کے سامنے‘ رحمت باران کے وقت اور دردزہ کے وقت عورت کی دعا قبول ہوتی ہے۔ ان اوقات کے علاوہ بھی کچھ اوقات بزرگوں نے فرمائے ہیں۔ اس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ قبولیت کے اوقات غیر قبولیت کے اوقات سے جدا ہیں اور رب العالمین کی توجہ اس کائنات پر مختلف اوقات میں مختلف انداز سے ہوتی ہے۔ کبھی ان کی شان رحمت کا ظہور ہوتا ہے اور کبھی ان کی شان قہاریت کا۔ کیونکہ جس طرح وہ رحمن و رحیم ہیں اسی طرح وہ قہار وجبار بھی ہیں۔
قسط نمبر 18