سورہ رحمن کی عظمت و افادیت
قسط نمبر 17
سمندر نہ صرف ہمارے سفروںکا راستہ بنتاہے بلکہ ہمارے لئے بہترین اور مفید ترین غذا بھی فراہم کرتا ہے۔یہ سخت کھاری سمندری پانی کا جو منہ تک بھی نہیں جا سکتا۔ پینا تو درکنار اور اگر یہ پانی انسان کے بدن پر لگ جائے تو بدن میں کھجلی پیدا کردے اس کھارے اور نمکین پانی میں رب العالمین نے تروتازہ مچھلیاں پیدا کی ہیں وہ مچھلیاں جن کا گوشت سب سے زیادہ لذیذ بھی ہوتا ہے اور مفیدبھی۔
اس کے علاوہ سمندر اپنے دامن میں اور بھی بہت سے خزانے چھپائے ہے جو انسانوںکیلئے نفع کا باعث بنتے ہیں۔سمندر ہی کی گہرائی میں مارجان کا درخت اگتاہے اور سمندر ہی کے دامن سے موتی اور عنبر پید ا ہوتے ہیں‘ نمک جیسی ضروری اور قیمتی چیز سمندر ہی کے پانی سے تیار ہوتی ہے اور بھی ہزاروں طرح کی نفع بخش چیزوں کو انسان سمندر کا سفینہ چیرکر برآمد کرتا ہے۔یہ سب چیزیں اس ذات گرامی کی پیدا کردہ ہیں کہ جس نے اپنے بندوں کی ضروریات کا بھی خیال رکھا ہے اور خواہشات کا بھی۔ ان سب چیزوں کو دیکھنے اور محسوس کرنے کے بعد بہت ہی ناقدرا اور احسان فراموش ہوگا وہ انسان جو اللہ کی پیدا کردہ ان نعمتوں کو جھٹلائے یا ان کی تکذیب کرے۔
اس کے بعد فرمایا کہ روئے زمین پر جو کچھ بھی ہے سب فنا ہونے والا ہے اور باقی رہنے والی ذات صرف حق تعالیٰ کی ہے۔ یعنی فنا کے گھاٹ سبھی کو اتر جانا ہے۔ کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جس کو دوام نصیب ہو۔ ہر چیز عارضی اور وقتی ہے۔ خوشیاں بھی عارضی ہیں اور غم اور دکھ بھی۔ اسی طرح ہر جاندار اور ہر بے جان چیز بھی عارضی اور وقتی ہے۔ایک دن اور ایک وقت سبھی کو ختم ہوجانا ہے۔ قرآن حکیم میں ایک اور جگہ یہ فرمایا گیا ہے۔ کل شیء ھانک الا وجھہ ہر چیز ہلاک ہو جانے والی ہے ماسوا رب العالمین کی ذات کے۔ایک وقت مقررہ پر انسان بھی وفات پا جاتے ہیں حیوان بھی اور دنیا کی وہ چیزیں جو انسان کی ضرورت بن کر انسان کے اردگرد بکھری ہوئی ہیں۔ رب العالمین نے اپنی نعمتوں کا ذکر کر کے اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ میری پیدا کردہ کوئی بھی نعمت اور کوئی بھی شے ایسی نہیں ہے کہ جسے اس دنیا میں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہر چیز کی ایک عمر ہے اور عمر طبعی کو پہنچ کر ہر چیز فنا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح خود وہ انسان بھی جس کے لئے ہزاروں طرح کی نعمتیں پیدا کی ہیں وہ بھی فنا ہو جاتا ہے۔مثلاً انسان کا اپنا وجود بھی رفتہ رفتہ اور آہستہ آہستہ فنا کی طرف بڑھتارہتا ہے۔ اس کے جسم کے اعضاء آہستہ آہستہ اپنی قوت کم کرتے رہتے ہیں۔ آہستہ آہستہ اس پر ضعف اور بڑھاپا طاری ہوتا رہتا ہے پھر ایک دن وقت موعود آ جاتاہے اور انسان مٹی سے بنایا گیا تھا اور مٹی ہی میں مل جاتا ہے۔
قسط نمبر 16