سورہ رحمن کی عظمت و افادیت
قسط نمبر 15
اس آیت میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ حق تعالیٰ نے سمندر کے اندر دونوں طرح کے پانی پیدا کئے ہیں اور ان دونوں کی منفعتیں جدا جدا ہیں۔ میٹھا پانی پینے کے کام آتا ہے اور نمکین پانی سے نمک بنتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ دونوں پانی اپنی جدا جدا صفات کی وجہ سے جدا جدا ضرورتوں میں کام آتے ہیں۔ ان سب راحتوں لذتوں اور نعمتوں کا جھٹلا دینا بھلا کیسے ممکن ہے؟ اس کائنات میں ہر قدم پر اللہ کی ایک نعمت موجود ہے انسان کس کس نعمت کو جھٹلا سکتاہے؟
پانی صرف پینے ہی کے کام نہیں آتابلکہ پانی انسان کی ہزار ضرورتوں میں کام آتا ہے۔ قرآن حکیم میں ایک جگہ یہ فرمایا گیا۔
وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآئِ کُلَّ شَیْئٍ حَیِّ اَفَلاَیُؤمِنُوْنَ (سورۂ انبیاء‘ آیت:۳)
یعنی ہم نے پانی سے ہر چیز کو زندہ کیا کیا وہ ایمان نہیں لائے۔
پانی کھیتوں کو پروان چڑھاتا ہے‘ پانی اناج اگانے کا ذریعہ بنتا ہے‘ اس پانی کی بدولت عمارتیں تعمیر ہوتی ہیں‘ پانی کے ذریعہ گارا اور سیمنٹ تیار ہوتا ہے‘ پانی بذریعہ غسل انسانی جسم کے میل کچیل کو دور کرتا ہے‘ پانی سے ترکاریاں اور سالن تیار ہوتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ پانی کا سہارا لے کر آٹا گوندھا جاتا ہے اور روٹی تیار ہوتی ہے۔ پانی کے بغیر زندہ رہنا ناممکن ہے۔ یہ نعمت جس کی عام طور پر ہم ناقدری کرتے ہیں اگر ہمیں میسر نہ ہو تو ہمیں اس کی قیمت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پانی اللہ کی پیداکردہ نعمتوںمیں سب سے اہم نعمت ہے لیکن چوں کہ یہ پانی ہمیں فراخی کے ساتھ میسر ہے اس لئے ہم اس کی قیمت کا اندازہ نہیں کر پاتے۔جن علاقوں میں پانی کا قحط ہوتا ہے جہاں بارشیں نہیں ہوتیںکوئیں اور تالاب نہیں ہوتے اور پانی ذرا مشکل سے دستیاب ہوتا ہے وہاں کے لوگوں سے پوچھئے کہ پانی کیا ہے اور یہ اللہ کی پیدا کردہ کتنی عظیم الشان نعمت ہے۔ گرمی کے تپتے ہوئے دنوں میں جب پانی کی کمی پڑتی ہے جب بارش برسنے میں دیر ہو جاتی ہے اور زمینیں خشک ہو کر پھٹ جاتی ہیں اور جب کھیتیاں گرمی کی شدت کی وجہ سے جھلسنے لگتی ہیں۔ پھر اچانک رحمت کی بارشیں برستی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر چیز ہری بھری ہو جاتی ہے۔ پانی ہے ہی ایسی نعمت ہر خزاں رسیدہ چمن کو ہرا بھرا کر دیتا ہے اور مردہ زمین کو نئی زندگی عطا کر دیتا ہے ۔ اس نعمت کی ناقدری وہی لوگ کر سکتے ہیں جو ایمان سے محروم ہوں جنہیں اللہ نے دولت ایمان عطا کر رکھی ہے وہ اس نعمت کی تکذیب کیسے کر سکتے ہیں۔
اگلی آیت میں فرمایا:
یَخْرُجُ مِنْھُمَا اللُّوْلُوْوَالْمَرْجَانْ۔ فَبِاَیِّ الاَئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانْ
ان دونوں سمندروں میں سے موتی اور مرجان نکلتے ہیں۔ پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے۔ اس جگہ ان دو نگینوں کا ذکر کیا جوسمندر میں پیدا ہوتے ہیں اور یہ دونوںنگینے انسان کو فائدہ پہنچانے والی ایک مخصوص نعمت ہیں۔ موتی صدف میں پل کر تیار ہوتا ہے اور مرجان جسے مونگا کہتے ہیں ایک درخت پر ایک پھل کی طرح لگتا ہے پھر تراش خراش کے بعد یہ مونگا بن جاتا ہے۔ جو لوگ نگینوں اورپتھروںکی حقیقت سے واقف ہیں انہیں بخوبی اس بات کا اندازہ ہے کہ رب العالمین نے اپنے بندوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ان نگینوں اور پتھروں کو پیدا کیا ہے اور ان پتھروں اور نگینوں میں ہزار طرح کی افادیت رکھی ہے۔ یہ نگینے اور پتھر بعض امراض کو دفع کرنے کا ذریعہ بھی بنتے ہیں اور ان نگینوں سے بفضل خداوندی مشکلات زندگی پر قابو بھی پایا جاتا ہے۔ موتی اورمونگا اگر راس آ جائیں تو انسان کی غربت مالداری میں بدل جاتی ہے اور باذن خداوندی اگر یہ نگینے کسی انسان کو راس آ جائیں تو اس کی زندگی میں سنہرا انقلاب آ جاتا ہے اور اس کی محرومیاں ختم ہو جاتی ہیں ۔ بلاشبہ یہ لؤ لو (موتی) اور یہ مرجان(مونگا) اللہ کی پیدا کردہ نعمتیں ہیں جن کی تکذیب کرنا ممکن نہیں ہے۔
قسط نمبر 14