سورہ رحمن کی عظمت و افادیت
قسط نمبر13
زمین کو فرش کی طرح اور اس میں نرمی پیدا کر کے اسے اس قابل بنایا کہ انسان اس میں درخت لگا سکے اور اس زمین سے سبزیاں اور ترکاریاں پیدا کر سکے۔ آپ دیکھ لیجئے کہ بڑے بڑے باغات درخت‘ کھیتیاں اور پھول اسی زمین کی دین ہیں اور یہ زمین ہمارے لئے بھی اناج اور غلہ فراہم کرتی ہے اور ہمارے چوپائوں اور مویشیوں کے لئے بھی قرآن حکیم میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے: فلینظر الانسان الی طعامہ انا صصینا المآء صبائم شققنا المآء شقا فاتبتنا فیھا حبا وعنبا وقضباوزیتونا ونخا وحدائق غلبا وفا کھۃ وابا متاعالکم ولانعامکم (سورۂ عبس ۲۴ تا ۳۲)
اب دیکھ لیجئے انسان اپنی غذا کی طرف کہ ہم نے اوپر سے پانی اتارا پھر زمین کے سینے کو چیرا پھر اگایا اس میں اناج اور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے باغات اور میوہ اور گھاس یہ سب کچھ متاع ہے تمہارے لئے اور تمہارے جانوروں کے لئے۔اندازہ کیجئے کہ ایک کسان زمین کا سینہ چیر کر اس میں بیج بوتا ہے۔ پھر رحمت کی بارشیں برستی ہیں اور پھر وہ بیج جو زمین میںدبائے گئے تھے اللہ کے حکم سے زمین کا سینہ چیر کر ایک پودے کی شکل میں باہر آتے ہیں پھر وہ رفتہ رفتہ درختوں کی شکل میں بدل جاتے ہیں پھر ان پر طرح طرح کے پھل آتے ہیں جو لذیذ بھی ہوتے ہیں اور انسانوں کو غذائیت بھی فراہم کرتے ہیں۔ آم‘ امرود‘ انار‘ سیب‘انگور وغیرہ اورزمین کا سینہ چیر کر خربوزہ‘ تربوز وغیرہ کس طرح پیدا ہوتے ہیں اور انسانوں کی ضرورتیں کس طرح پوری کرتے ہیں طرح طرح کی ترکاریاں شلجم‘ پالک‘ گوبھی‘ گاجر‘ مولی وغیرہ دیکھئے کس طرح پیدا ہوتی ہیں اور کس طرح وہ پیڑ اگتا ہے جو انسانوں کی زندگی کے لئے بنیادی غذا کی حیثیت رکھتا ہے۔ گیہوں چنا‘ چاول‘ باجرہ وغیرہ پیدا کئے جو انسان کی زندگی کو باقی رکھنے کاذریعہ بنتے ہیں اور ان ہی میں بعض اناج ایسے بھی ہیں جن میں بھس بھی ہوتا ہے اور مویشیوں کی خوراک بنتا ہے۔ ان نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے اور تم کس کس انعام کی تکذیب کرو گے۔
اگلی آیت: خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالِ کَاالْفَخَّارِ۔ وَخَلَقَ الْجَآنِّ مِنْ مَّارِجٍ مِنْ نَّارِ
اس نے انسان کو (یعنی آدم کو) ایسی مٹی سے پیدا کیا جو ٹھیکرے کی طرح بجتی تھی اور اس نے جنات کو خالص آگ سے پیدا کیا۔
آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت آدمؑ کی تخلیق جو ابوالبشر تھے یعنی تمام انسانوںکے باپ تھے وہ مٹی سے پیدا کئے گئے اورجنات کے باپ کو دہکتی آگ سے پیدا کیا گیا۔ یا مرادیہ بھی ہو سکتی ہے کہ حضرت آدمؑ کی تخلیق جن عناصر سے ہوئی ان میں مٹی کا غلبہ تھا اور جنات کی تخلیق جن عناصر سے ہوئی ان میں آگ غالب تھی۔ ایک بحث کے دوران جو ابلیس براہ راست حق تعالیٰ سے کر رہا تھا اس نے کہا تھا خََلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارِ وَّ خَلَقْتَہٌ مِنْ طِیْنٍ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اورآدم کو مٹی سے۔ اور آگ کا مقام مٹی سے بڑھا ہوا ہے تو میں کیوں آدم کے پتلے کو سجدہ کروں۔
بہرحال یہ مسلم ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کا پتلا مٹی سے بنایا گیا تھا جب اس پتلے کی تیاری ہوئی تو مٹی کو جمع کیا گیا پھر اس میں پانی ملایا تو یہ طین یعنی گارا بن گئی تراب سوکھی مٹی کو کہتے ہیں اور طین اس مٹی کو کہتے ہیںجس میں پانی کی آمیزش ہو۔ پھر اس طین سے آدم کا پتلا تیار کیا گیا جب وہ سوکھ گیا تو وہ صلصال ہو گیا اور مثل فخار کے ہو گیا۔ یعنی سوکھنے کے بعد اس میں سے کھنکھنانے کی آواز آنے لگی۔ کسی بھی ٹھیکرے پر جب انگلی ماری جاتی ہے تو اس میں کھنکھناہٹ کی آواز اتی ہے اسی آواز کو صَلْصَالٍ کاَلْفَخَّار کہا گیا ہے۔
پہلی آیت میں اس بات کی وضاحت کردی گئی ہے کہ انسان کو مٹی سے بنایا گیا اور جنات کو خالص آگ سے بنایا گیا۔ انسانوں میں جو عجازی اور مسکنت پائی جاتی ہے وہ مٹی کا اثر ہے اور جنات میں جو سرکشی اور تمرد پایا جاتا ہے وہ آگ کے اثرات ہیں۔
دیکھا جائے تو انسان کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے بنا کر اس پر احسان عظیم فرمایا ہے‘ اس کے بعد پھر حق تعالیٰ یہ فرماتے ہیں کہ تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے‘تمہارا رب مختار تھا وہ چاہتا تو تمہیں بھی آگ سے پیدا کر دیتا یا کسی اور چیز سے تمہارا ڈھانچہ بنا دیتا لیکن اس نے اس مٹی سے تمہارا ڈھانچہ تیار کیا جس میں عاجزی ہوتی ہے‘ جھکائو ہوتا ہے اس لئے یہ بھی ایک طرح کا انعام ہے بلکہ یہ ایک احسان بیکراں ہے اور تم اس احسان بیکراں کی تکذیب کیسے کرا سکتے ہو؟
اگلی آیت میں فرمایا: رب المشرقین و رب المغربین
یعنی وہ رب ہے دونوں مشرقوں کا اور دونوں مغربوں کا۔ مشرق سے مراد وہ جگہ جہاں سے سورج طلوع ہوتا ہے اور مغرب سے مراد ہے وہ جگہ جہاں سورج غروب ہوتا ہے۔ اس دنیا کا نظام کچھ اس طرح کا ہے کہ سورج مشرقی علاقوں میں طلوع ہو کر بائیں جانب سے اپنا سفر تہہ کرتا ہوا نصف النہار سے گزرتا ہوا ڈوب جاتا ہے پھر مغربی علاقوں میں طلوع ہو کر وہ دائیں جانب کا سفر تہہ کرتے ہوئے اپنے مقام خاص پر جا کر غروب ہو جاتا ہے۔ اس طرح ۲۴ گھنٹوں میں وہ پوری دنیا کا چکر لگا لیتا ہے۔ مشرقی علاقوں میں جب دن ہوتا ہے تو مغربی علاقوں میں رات ہوتی ہے اور مغربی علاقوں میں جب دن ہوتا ہے تو مشرقی علاقوں میں رات ہوتی ہے اس طرح سورج اللہ کے حکم سے اپنا سفر جاری رکھتا ہے اور اسی طرح تاقیامت وہ اپنی گردش کو جاری رکھے گا۔ اس حساب سے مشرق اور مغرب دو قرار پائیں گے اور ان دونوں کا مالک اور رب حق تعالیٰ ہے۔ اسی کے حکم سے طلوع و غروب کا سلسلہ جاری ہے۔ چاند اور سورج کی یہ مجال نہیں کہ وہ اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کر سکیں۔
اس آیت میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ سورج اور چاند کے طلوع و غروب سے دنیا میں لیل و نہار کا سلسلہ برقرار ہے اور اس لیل و نہار کے سلسلے میں یعنی دن اور رات کی گردشوں سے انسانوں اور جنوں کے لئے ہزار طرح کے منافع ہیں۔ اگر اس دنیا میں صرف دن ہوتا اور رات نہ ہوتی تو بھی زندگی کا کیف ختم ہو جاتا اور اگر رات ہوتی اور دن نہ ہوتا تو بھی زندگی کا کیف ختم ہو جاتا۔ اللہ کی قدرت کے قربان جائیے کہ اس نے دن اور رات کے سلسلے کو پیدا کر کے اپنی مخلوقات کے لیے راحتوں کا بھی انتظام کر دیا اور منفعتوں کا بھی اور اسی آیت میں یہ لطیف اشارہ بھی موجودہے کہ لیل و نہار کی گردش صرف دن اور رات کے گھٹنے بڑھنے کا نام نہیں ہے بلکہ اسی گردش سے اس دنیا میں موسم بھی بدلتے ہیں کبھی سردی کا زمانہ آتا ہے اور کبھی گرمی کا۔یہ موسم کی تبدیلی بھی دن اور رات کی گردش اور چاند سورج کے طے شدہ سفر کی وجہ سے ہے۔ اگر اس دنیا میں صرف ایک موسم ہوتا صرف سردی ہوتی اور گرمی نہ ہوتی تب بھی زندگی کا کیف ادھورا رہتا۔ رب العالمین نے تنوع پسند انسان کے لئے کئی طرح کے موسم پیدا کئے اور یہ کئی طرح کے موسم چاند اور سورج کی مسلسل گردشوں کی وجہ سے ہیں۔ ان انعامات کو جو دیکھنے میں نظر آتے ہیں اور غوروفکر کرنے سے محسوس بھی ہوتے ہیں ان کی ناقدری کرنا کیسے جائز ہے اور ہم اللہ کے بندے ان انعامات و احسانات کو کس طرح جھٹلا سکتے ہیں اور ان کی تکذیب کرنا کسی بھی صاحب ایمان کے لئے کیسے ممکن ہے؟
قسط نمبر 12