سورہ رحمن کی عظمت و افادیت
قسط نمبر12
سورۂ شوریٰ میں فرمایا گیا۔
اَللّٰہُ الَّذِیْ اَنْزَلَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ وَالْمِیْزَانَ
اور اللہ وہی ہے جس نے اتاری کتاب سچے دین کی اور اتاری ترازو بھی۔
حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے:
’’اللہ نے مادی ترازو بھی اتاری جس میں رجسام تلتے ہیں اور علمی ترازو بھی جسے عقل سلیم کہتے ہیں اور اخلاقی ترازو بھی جسے عدل و انصاف کہا جاتا ہے اور سب سے بڑی ترازو دین حق ہے جو خالق و مخلوق کے حقوق کا ٹھیک ٹھیک تصفیہ کرتا ہے اور جس میں بات پوری تلتی ہے نہ کم نہ زیادہ۔
سورۂ حدید میں فرمایا گیا۔
وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمْ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیْقُوْمُ النَّاسَ بِاالْقِسْطِ
اور اتاری ہم نے ان کے ساتھ یعنی انبیاء کے ساتھ کتاب اور میزان تاکہ لوگ سیدھے رہیں انصاف پر۔
اس آیت کی تفسیر میں شیخ الاسلام حضرت مولاناشبیر احمد عثمانیؒ فرماتے ہیں۔
’’کتاب اور ترازو‘ شاید اسی لئے تولنے کی ترازو کو کہا کہ اس کے ذریعہ سے بھی حقوق ادا کرنے اور لین دین کرنے میں انصاف ہوتا ہے یعنی کتاب اللہ اس لئے اتاری کہ لوگ عقائد اخلاق اور اعمال میں سیدھے انسان کی راہ چلیں۔ افراط و تفریظ کے راستہ پر قدم نہ ڈالیں۔ ترازو اس لئے پیدا کی کہ بیع و شرا کے معاملات میں انصاف کا پلہ کسی طرف اٹھایا‘ جھکا نہ رہے۔ ممکن ہے کہ ترازو سے مراد شریعت ہو جو تمام اعمال کے حسن و قبح کو ٹھیک جانچ تول کر بتلاتی ہے۔
قرآن حکیم میں بعض سورتوں میں میزان کی جمع موازین بول کر حق و انصاف کی بات کو دہرایا گیا ہے مثلاً سورۂ انبیاء میں فرمایا گیا۔
وَنَضََعُ الْمِیْزَانَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ فَلاَ تُظْلَمُ نَفْس شَیْئًا وَاِنْ کَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃِ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِھَا وَکَفٰی بِنَا حٰسِبِیْنَ
اور رکھیں گے ہم ترازوئیں انصاف کی قیامت کے دن پھر کسی جی پر بھی کوئی ظلم نہیں ہوگا کوئی عمل برابر رائی کے دانے کے بھی تو ہم اس کولے آئیں گے اورہم کافی ہیں حساب کرنے کے لئے۔
اس آیت میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ ہم قیامت کے دن حق و انصاف کرنے کیلئے بہت سی ترازو نصب کریں گے اور قیامت کے دن کسی بھی انسان پر ایک ذرے کے برابر بھی ظلم نہیں ہوگا۔ اگر کسی نے رائی کے برابر بھی کوئی برائی کی ہوگی تو اس کو بھی ہم کھینچ کر لائیں گے اور اگر کسی نے رائی کے دانے کے برابر نیکی کی ہوگی تو اس کو بھی ہم پیش کریں گے۔ ہر شخص کے اعمال کا پورا پورا بدلہ اسے ملے گا۔ کسی کے بھی ساتھ معمولی درجہ کی بھی زیادتی نہیں ہوگی۔ اس آیت کے ذریعہ حق تعالیٰ نے اپنے بندوں پر یہ بات بھی منکشف کردی ہے کہ ہم صرف تمہیں صحیح تولنے اور صحیح ناپنے کا پابند نہیں کرتے ہم خود بھی صحیح تولنے اور صحیح ناپنے کا اہتمام کر کے دکھائیں گے۔ ہم بھی تمہاری طرح ترازو کا استعمال کریں گے اور اس ترازو میں سب کے اعمال پورے پورے تولے جائیں گے کسی اور زیادتی کا کوئی امکان نہیں ہوگا پھر تمہارے افعال و اعمال کا پورا پورا بدلہ تمہیں ملے گا اور یہی انصاف ہے۔ میزان اور ترازو سے مراد صرف یہ نہیں ہے کہ ہم کوئی ترازو لے کر بیٹھ جائیں بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ کسی بھی معاملے میں لینے دینے کے پیمانے الگ الگ نہ کریں۔ اس دنیا کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ جب وہ دوسروں سے لینے کی بات کرتی ہے تو اس کا پیمانہ دوسرا ہوتا ہے اورجب وہ دوسروں کو دینے کی بات کرتا ہے تو اس کا پیمانہ دوسرا ہوتا ہے اور یہ انصاف نہیں ہے۔ انصاف تو یہ ہے کہ لیتے اور دیتے وقت ہمارا پیمانہ ایک ہو۔ حق و انصاف اسی کا نام ہے کہ ہم لوگوں کے ساتھ وہ برتائو نہ کریں کہ جو برتائو اگر ہمارے ساتھ کیا جاتا تو ہمیں تکلیف ہوتی۔ جگہ جگہ قرآن حکیم میں میزان کا ذکر کرنے کی وجہ یہی ہے کہ انسان اس دنیا میں اس طرح جئے کہ ذرہ برابر بھی وہ دوسروں کے ساتھ ظلم و ستم کرنے کا خوگر نہ ہو۔ میزان اور پیمانے کی برابری کا مطلب یہ ہے کہ جو بات ہم اپنے لئے پسند کریں وہی بات ہم اپنے بھائیوں کیلئے پسند کریں۔ اپنے لئے میٹھے کو پسند کرنا اور دوسروں کیلئے کڑوی چیز پسند کرنا درحقیقت دو طرح کے پیمانے رکھنے کے مترادف ہے۔ کسی سے کچھ لیتے وقت ہم اس بات کے خواہشمند ہوں کہ جھکتا ہوا تولا جائے اور کسی کو دیتے وقت ہم یہ چاہیں گے کہ اٹھتا ہوا یعنی کم تولا جائے تو یہ بات اور یہ طریقہ قرین انصاف نہیں ہے۔ قرین انصاف یہ ہے کہ لیتے وقت اور دیتے وقت ہماری ناپ تول ایک جیسی ہو۔
اس دنیا میں جہاں بے شمار نعمتیں اللہ نے اپنے بندوں کیلئے پیدا کی ہیں وہیں اس نے میزان کو بھی پیدا فرمایا ہے۔ میزان آخرت کیلئے بھی بنائی گئی ہے جہاں بندوں کا حساب و کتاب ہوگا اور اس میزان میں اچھے برے اعمال تول کر صحیح وزن کے ساتھ بتایا جائے گا کہ کس کے اچھے اعمال وزن دار ہیں اور کس کے برے اعمال وزن دار ہیں۔
سورۂ القارعہ میں فرمایا گیا: فَاَمًامَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہْ فَھُوَ فِیْ عِیْشَۃِ رَاضِیَۃٍ وَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٌ فَاْمُّہٌ ھَاوِیَۃً
جس انسان کے اچھے اعمال کا وزن بھاری ہوگا وہ مقام رضا میں ہوگا اور عیش و آرام کے ساتھ ہوگا اور جس انسان کے برے اعمال کا وزن زیادہ ہوگا وہ جہنم میں گڑھے میں ہوگا۔
یہ ترازو جو آخرت میں انسانوں کے اعمال کو تولے گی یہ بھی ایک طرح کی نعمت ہے اور اس نعمت کے ذریعہ انسان ظلم و زیادتی کا شکار نہیں ہونے پائے گا۔ اس نے جو بھی اچھے کام کئے ہوں گے ان کا صحیح صحیح وزن اس کے سامنے آئے گا اور وہ اپنے نیک کاموں کا پورا پورا بدلہ پائے گا اور اس دنیا میں جو میزان پیدا کی گئی ہے وہ ہمیں ظلم و زیادتی سے افراط و تفریط سے کمی بیشی سے محفوظ رکھتی ہے اور میزان سے مراد صرف ترازو نہیں ہے بلکہ میزان سے مراد عقل سلیم بھی ہے جو انسانوں کو صراط مستقیم پر راہ دیانت پر قائم رکھتی ہے اور میزان سے مراد وہ شریعت بھی ہے جو بندوں کو گمراہی سے محفوظ رکھتی ہے اور افراط و تفریط کے جنگل میں بھٹکنے سے روکتی ہے۔
سورۂ رحمن میں رب العالمین نے اپنے بندوں کو اس بات کی تعلیم دی ہے کہ وہ زندگی حق و انصاف کے ساتھ گزاریں۔ صحیح تولیں صحیح ناپیں۔ اپنے فرائض صحیح طریقے سے ادا کریں اور دوسروں کے حقوق کی ادائیگی پوری احتیاط اور پوری جانچ پڑتال کے ساتھ کریں۔ آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اپنے حقوق وصول کرتے وقت یہ چاہتے ہیں کہ ترازو کا پلڑہ پوری طرح جھک جائے اور اپنے فرائض ادا کرتے وقت یا دوسروں کے حقوق ادا کرتے وقت ہم سونے جیسا تول تولنے لگتے ہیں اور موقعہ ملنے پر ڈنڈی مارنے سے بھی باز نہیں آتے۔
قرآن حکیم کے تیسویں پارے میں فرمایا گیا ہی۔
وَیْل لَلْمُطَفِفِیْنَ اَلَّذیْنَ اِذَا کْتَا لُوَا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفَوْنَ وَاِذَا کَالُوْھُمْ اَوْزَنُوْھُم یُخْسِرُوْنَ یعنی خرابی ہے ان لوگوں کے لئے جو لیتے وقت پورا پورا ناپیں یا زیادہ ناپیں اور دیتے وقت ناپنے میں کمی کریں اور گھٹا دیں۔
اس دنیا میں اکثر و بیشتر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ انسان دوسروں سے وصول کرتے وقت یہ چاہتاہے کہ ناپ اور تول پورا پورا ہو یا کچھ بڑھا کر ہو اور ادائیگی کے وقت وہ یہ چاہتا ہے کہ ناپ تول میں کچھ کمی کر دے اس بات کو اسلام نے ناپسند کیا ہے اور تنبیہ کی ہے ان لوگوں کو جو دینے اور لینے کے پیمانے جدا جدا رکھتے ہیں۔ اس دنیا میں اچھے لوگ وہ ہوتے ہیں جو لیتے اور دیتے وقت ایک سوچ اور ایک نقطہ نظر رکھتے ہوں۔ جودوسروں کی بھلائی کرنے کیلئے وہی سوچیں جو کچھ وہ اپنے لیے سوچتے ہیں۔ اس بات کو اس حدیث میں سرکار دو عالمﷺ نے فرمایا ہے کہ جو چیز تم اپنے لئے پسند کرو وہی اپنے بھائیوں کے لئے پسند کرو۔ یہی دراصل صحیح تول ہے اور یہی دراصل میزان اور ترازو کا صحیح استعمال ہے۔ اس کے بعد حق تعالیٰ نے ذکر کیا ہے۔ زمین کا کہ اس کو کس طرح بچھایا گیا۔ زمین کے چاروں طرف چونکہ سمندر ہے اور زمین سمندر کے بیچ میں ہے لیکن حق تعالیٰ نے بڑے بڑے پہاڑ زمین پر قائم کر دیے تاکہ یہ زمین ہچکولے نہ کھائے اور ہنڈولہ اور جھولا بن کر نہ رہ جائے۔ پھر اس زمین کو پہاڑوں کی طرح سکت نہیں بنایا۔ اگر یہ سخت ہوتی تو اس کا سینہ چیر کر اناج وغیرہ پیدا کرنا بہت دشوار ہوتا۔ زمین کو نرم بنایا تاکہ اس سے مخلوقات استفادہ کر سکے۔ پھر اسی زمین میں جو تاحد نظر بجھا دی گئی حق تعالیٰ نے طرح طرح کے درخت اگائے اور ایک زمین میں طرح طرح کی کھیتیاں پیدا کیں۔ جن کے ذریعہ انسان اپنا پیٹ بھی بھرتا ہے اور اپنے مویشیوں کا بھی۔ زمین کے بارے میں ایک جگہ فرمایا: وَالْاَرْضَ فَرَشْنَاھَا فَنِعْمَ الْمَاھِدُوْنَ (سورۂ ذاریات: ۴۸)
ہم نے زمین کو فرش کے طور پر بچھایا اور ہم کیسے اچھے بچھانے والے ہیں۔
حق تعالیٰ نے زمین کو فرش کی طرح بچھا کر دراصل اس دنیا کو مخلوقات کے لیے ایک ایسا بچھونا فراہم کیا۔ جو سب کے لیے راحت و سکون کا ذریعہ ہے۔ اگر زمین بچھونے کی طرح سیدھی نہ ہوتی اور اونچی نیچی اور ٹیڑھی میڑھی ہوتی تو مخلوقات کا چلنا پھرنا اور اٹھنا بیٹھنا محال ہو جاتا اور مخلوقات کو طرح طرح کی تکلیفات اٹھانی پڑتیں۔ دوران سفر جب انسان کو مختلف گھاٹیوں اور پہاڑیوں اور چٹانوں سے گزرنا پڑتا ہے تو کس قدر دشواری پیش آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس طرح کی ہزار دشواریوں سے بچانے کے لئے زمین کو فرش کی طرح بچھا دیا اور زمین کو ساکن و ساکت رکھنے کے لئے اس پر بڑے بڑے پہاڑ نصب کر دئیے۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں فرمایا گیا: وَاَلْقٰی فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَبِکُمْ (سورۂ نحل:۱۵)
اور اس نے زمین پر پہاڑ رکھ دئیے تاکہ وہ ڈگمگانے اور ہلنے نہ لگے۔