سورہ رحمن کی عظمت و افادیت
آخری قسط
ان چند پتھروں کے ذکر سے قارئین کو یہ اندازہ بخوبی ہو گیا ہوگا کہ رب العالمین نے انسانوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے کیسی کیسی عظیم الشان نعمتیں پیدا کی ہیں اور کس کس طرح اپنے بندوں کو فائدہ پہنچانے کی سکیمیں مرتب کی ہیں۔ہم ان کی کس کس نعمت اور کس کس عنایت کی تکذیب کر سکتے ہیں اور قربان جائیے ان کی شان رحمت کے کہ انہوں نے یہ بھی فرمایا: ھَلْ جَزَائُ الْاِحْسَانِ اِلاَّ الْاِحْسَان۔ نیکی کابدلہ سوائے نیکی کے اور کیا ہو سکتا ہے۔ اس آیت میں رب العالمین نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جب میرے بندے نیکی کرتے ہیں اور ہماری اطاعت بجا لاتے ہیں تو پھر ہماری بھی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم نیکی کا بدلہ انہیں نیکی سے دیں اور ان عبادات کا صلہ اس انداز سے پیش کریں کہ وہ خوش ہو جائیں اور انہیں خود یہ اندازہ ہو جائے کہ ہم نے ان کی نیکیوں کی قدر کی اور انہیں بہتر جزا سے نوازا۔ اگر دیکھا جائے تو یہ بھی رب العالمین کی ایک نعمت ہے۔ جس دنیا میں لوگ نیکیوں کی ناقدری کرتے ہوں‘ بھلائی کے جواب میں برائی کرتے ہوں‘ احسان کے بدلے میں ستم ڈھاتے ہوں‘ محبت کے بدلے نفرت سے دیتے ہوں‘ اس دنیا میں اگر کوئی بھی ذات نیکی کے بدلے میں نیکی عطا کرے اور محبت کے بدلے میں محبت اور چاہت بخشے تو یہ بھی ایک طرح کا کرم اور ایک طرح کا انعام ہے اور کوئی بھی بندہ اس کرم اور اس انعام کو کیسے نظرانداز کر سکتا ہے؟
اس کے بعد فرمایا: وَمِنْ دُوْنِھمًا جَنَّتٰن فَبِاَیِّ الاَئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَان فَبِاَیِّ الاَئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَان
فرمایا کہ ان باغات کے علاوہ جن کا اوپر ذکر کیا گیا تھا اور بھی دو چھوٹے باغیچے ہوں گے اور وہ ہرے بھرے ہوں گے۔
اس دنیا میں باغات پر کچھ دن ایسے بھی گزرتے ہیں جب درختوں کے پتے سوکھ جاتے ہیں‘ زرد پڑ جاتے ہیں اور جھڑ جاتے ہیں۔ یہ زمانہ پت جھڑ اور خزاں کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ اس زمانہ میں باغات کا رنگ روپ ماند پڑ جاتا ہے اور ہریالی کی جگہ زردی پیدا ہو جاتی ہے۔ پت جھڑ کے اس موسم میں باغات کی خوبصورتی ختم ہوجاتی ہے نہ تو پھول رہتے ہیں نہ پھل اور نہ پتوں پر ہریالی باقی رہتی ہے لیکن سورۂ رحمن میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جنت کے باغیچے کبھی خزاں آلود نہیں ہوں گے۔ وہاں پت جھڑ کا موسم کبھی نہیں آئے گا وہاں ہمیشہ ہریالی رہے گی اور وہاںکے درختوں پر پھل اور پھول کھلتے رہیں گے وہاں ہر دم بہار کا موسم رہے گا اور باغیچوں کی شگفتگی اور شادابی کبھی خزاں آلود نہیں ہوگی۔ اس بات کو بیان کرنے کے بعد پھر رب العالمین نے اپنے خاص انداز میں فرمایا ہے کہ تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے؟
سورۂ رحمن میں حق تعالیٰ نے ایک نعمت بول کر اس کے ضمن میں ہزاروں حقیقتوں اور نعمتوں کی طرف اشارہ کیا ہے اور دونوں جہاں کی نعمتوں کی طرف اشارہ کر کے پھر یہ فرمایا ہے کہ تم اپنے رب کی کس کس نشانی کس کس حقیقت اور کس کس نعمت کی تکذیب کرو گے؟
حق تو یہ ہے کہ انسان کتنا بھی احسان فراموش ہو اور کتنا بھی ناقدرا ہو وہ اپنے رب کے ان انعامات اور ان احسانات کو نظرانداز نہیں کر سکتا جو س کے اردگرد بکھرے ہوئے ہیں جو مرنے کے بعد اسے جنت میں عطا ہونے والے ہیں۔
سورۂ رحمن ہمیں اپنے رب کے انعامات پر غوروفکر کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ بے شک ہمارے رب نے اس دنیا میں جو کچھ بھی پیدا کیا ہے وہ عبث اور بے فائدہ نہیں ہے۔ انسان کی عقل محدود ہے اور اس محدود عقل سے حق تعالیٰ کے لامحدود انعامات اور لامحدود حقائق کا نہ اندازہ کر سکتے ہیں نہ ادراک۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے القول الجمیل فی شفاء العلیل میں فرمایا ہے کہ سورۂ رحمن کی مندرجہ ذیل آیات جدو کے اثرات کو زائل کرتی ہیں۔ نماز فجر اور نماز مغرب کے بعد بحالت وضو تین تین مرتبہ ان آیات کو پڑھ کر سحرزدہ پر دم کریں اور ان ہی آیات کو ۲۱ مرتبہ پڑھ کر پانی پر دم کر کے مریض کو یہ پانی دن میں تین بار پلائیں۔ صبح شام اور رات کو سونے سے قبل‘ انشاء اللہ مریض کو سحر سے نجات ملے گی۔ آیات یہ ہیں: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یَامَعْشَرَالْجِنَ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانُفُذُوْاط لاَتَنُفُذُوْنَ اِلاَّ بِسْلُطٰن فَبِاَیِّ الاَئَ رَبَّکُمَا تُکَذِّبَان۔ یُرْسَلُ عَلَیْکُمَا شُوَاظ مِنْ نَّارٍوْ نُحَاس فَلا تَنْتِصِرَان۔
ان ہی آیات کو اگر کوئی شخص سفر پر جانے سے پہلے ایک مرتبہ پڑھ کر اپنے اوپر دم کر لے گا تو دوران سفر ہرطرح کی آفات اور حادثات سے محفوظ رہے گا۔
دودھ کی کمی کا ازالہ
اگر کسی زچہ کو دودھ کی کمی کی شکایت ہو تو خمیری روٹی پکا کر اس پر گلاب و زعفران سے یہ آیت لکھیں اور عورت کو کھلا دیں۔ انشاء اللہ دودھ کی کمی دور ہو جائے گی۔ اس عمل کو لگاتار سات روز تک کرنا ہے۔ آیت یہ ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ فِیْھَا عَیْنٰنِ تَجْرِیَان فَبِاَیِّ الاَئَ رَبَّکُمَا تُکَذِّبَان۔
حاکم کو مہربان کرنے کے لئے
اگر کوئی شخص اپنے افسر اور حاکم کی نظروں سے گر گیا ہو اور چاہتا ہو کہ حاکم کی غلط فہمی دور ہو جائے اور وہ پھر اس کی نظروں میں محترم اور معتبر ہو جائے تو اس کو چاہئے سورۂ رحمن ایک مرتبہ تلاوت کر کے اول و آخیر درود شریف کے ساتھ اپنے اوپر دم کرے پھر حاکم سے ملاقات کے لئے جائے اور راستے میں کسی سے بات نہ کرے اور بہ کثرت یہ آیت پڑھتا رہے۔ یَاذَوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَام۔ انشاء اللہ جس وقت حاکم کے روبرو جائے گا وہ ایک دم مہربان ہو جائے گا اور پھر مہربان ہی رہے گا۔
آسیب کا علاج
مندرجہ ذیل آیات کے ذریعہ آسیب زدہ کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ آسیب حاضر ہوگا اور عامل سے قول و قرار کرنے پر مجبور ہوگا لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ عامل سورۂ رحمن کی ان آیات کی زکوٰۃ ادا کرے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ ان آیات کو تین سو مرتبہ روزانہ پڑھے۔ اول و آخیر اکیس اکیس مرتبہ درود شریف پڑھے۔ ۴۰ دن میں زکوٰۃ ادا ہوگی۔ دوران چلہ ہر طرح کے گوشت‘ مچھلی‘ پیاز‘ لہسن اور انڈے سے پرہیز رکھیں۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کے بعد جب کسی آسیب زدہ مریض پر آسیب کو حاضر کرنا ہو تو ان ہی آیات کو ۲۱ مرتبہ پڑھ کر اول و آخیر ایک ایک مرتبہ درود شریف پڑھ کر مریض پر دم کر دے۔ اسی وقت آسیب حاضر ہوگا اور بتائے گا کہ میں فلاں ابن فلاں ہوں اور فلاں علاقے سے آیا ہوں یا فلاں نے مجھے اس پر مسلط کیا ہے۔ اس وقت عامل اس آسیب سے جو کہے گا وہ اس حکم کو بجا لائے گا اور آئندہ کیلئے مریض کو نہ ستانے کا عہد کرے گا۔ حاضر کرنے کے لئے ان آیات کو ۲۱ مرتبہ پڑھ کر مریض پر دم بھی کر سکتے ہیں اور کسی خوشبو یا پھول پر دم کر کے مریض کو سنگھا بھی سکتے ہیں۔ قول و قرار کے بعد جب عامل واپس ہونے کی اجازت دے گا تب ہی آسیب واپس جائے گا۔ عامل کی اجازت کے بغیر وہ واپس نہیں ہوسکے گا انشاء اللہ۔
مباحثہ میں کامیابی کے لئے
جو کوئی شخص کسی اچھے اور نیک مقصد میں مباحثہ میں حصہ لینا چاہتا ہو تو اس کو چاہئے کہ جس دن مباحثہ میں شرکت کرنی ہو اس دن نماز فجر کے بعد گیارہ مرتبہ سورۂ رحمن اس طرح پڑھے کہ اول و آخیر گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف پڑھے پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے مقصد میں کامیابی کی دعا کرے جس وقت مباحثہ کے لئے گھر سے روزانہ ہو تو راستے میں بلا تعداد یاذوالجلال والاکرام پڑھتا رہے۔ انشاء اللہ مباحثہ میں کامیابی ملے گی اور دوران مباحثہ جو بھی دیکھے گا وہ عزت و احترام کی نگاہوں سے دیکھے گا۔
بزرگوں نے فرمایا ہے کہ یہی عمل کسی بھی تقریر کی کامیابی کیلئے بھی کیا جا سکتا ہے۔
اس کے بعد فرمایا گیا:فِیْھِمَا عَیْنٰنِ نضَاحَتٰن فَبِاَیِّ الاَئَ رَبَّکُمَا تُکَذِّبَان فِیْھِمَا فَاکِھَۃً وَّنَخْلً وَّرُمَّان فَبِاَیِّ الاَئَ رَبَّکُمَا تُکَذِّبَان۔
ان باغوں میںجوش مارتے ہوئے دو چشمے ہوں گے۔ پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے۔ان باغوں میں کھجوریں ہوں گی‘ میوے ہوں گے اور اتار ہوں گے پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے۔
قرآن حکیم میں جنت کی نہروں کا جہاں جہاں ذکر ہے وہاں لفظ ’’تجریان‘‘ استعمال ہوا ہے یعنی ایسی نہریں ہوں گی جو مسلسل بہہ رہی ہوں گی۔ جو پانی ٹھہرا ہوا ہوتا ہے جیسے تالابوں کا پانی اس کے سڑنے اور خراب ہونے کا اندیشہ رہتا ہے لیکن جو پانی مسلسل بہتا رہتا ہے جیسے نہروں اور ندیوں کا پانی تو اس کے خراب ہونے کا امکان نہیں ہوتا۔ جنت میں جو نہریں ہوں گی ان کا پانی ٹھہرا ہوا نہیں ہوگا بلکہ وہ مستقل بہتا رہے گا۔ سورۂ رحمن میں جنت کی نہروں کا ذکر کرتے ہوئے لفظ ’’نضاختن‘‘ کا اتعمال کیا گیا ہے یعنی ایسا پانی جو زمین سے ابل رہا ہوگا اور جوش مار رہا ہوگا۔ آپ سمندر کے کنارے پر جا کر دیکھیں کہ پانی کس طرح جوش مارتا ہے اور اس کی لہریں کس طرح کنارے پر آ کر ٹکراتی ہیں۔ جنت کی نہروں کی خوبی یہ ہوگی کہ ان کا پانی جوش بھی مار رہا ہوگا اور ایسا محسوس ہو رہا ہوگا جیسے زمین کا سینہ چیر کر ابل رہا ہے۔ عجیب منظر ہوگا جس کو دیکھ کر اہل جنت مسرور ہوں گے۔ اس منظر کا نقشہ کھینچنے کے بعد حق تعالیٰ فرماتے ہیں اے میرے بندو تم میری کس کس نعمت کی تکذیب کرو گے۔ میں نے دنیا میں بھی تمہیں ٹھنڈے پانی سے تازہ پانی سے اور آنکھوں کو خوشنما نظر آنے والے پانیوں سے مستفیض کیا ہے اور جنت میں بھی میں تمہیں ایسے پای سے بہرہ ور رکھوں گا جو پینے میں میٹھا اور ٹھنڈا ہوگا اور دیکھنے میں دلفریب اور دلکش۔ تم دنیا اور آخرت کی کس کس نعمت کی تکذیب کر سکو گے؟
فرمایا‘ جنت میں مختلف میوے ہوں گے‘ کھجوریں ہوں گی اور انار ہوں گے۔ یہاں خاص طور سے کھجور اور انار کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ ان دونوں پھلوں کی افادیت حد سے زیادہ ہے اور انسانی صحت کے لئے یہ دونوں پھل انتہائی مفید اور موثر ثابت ہوتے ہیں۔
کھجور دل کے لئے مفید ہے اور دل کی تمام بیماریوں کو دفع کرتی ہے جو لوگ پابندی سے کھجور کھاتے ہیں ان کی قوت باہ کبھی متاثر نہیں ہوتی۔ کھجور ہی سے چھوارہ بنتا ہے۔ سرکار دو عالمﷺ اس چھوارے کو رات کو دودھ میں بھگو کر صبح کو کھانے کی ترغیب دیا کرتے تھے بعد کے اطباء نے یہ کہا ہے کہ مردانگی کو برقرار رکھنے کے لئے اس سے بہتر کوئی اور نسخہ موجود نہیں ہے۔
کھجور پیٹ کے امراض میں بھی مفید ہے یہ بتخیر کو بھی دفع کرتی ہے۔ نیز گیس کے مرض کو بھی کنٹرول میں لاتی ہے۔ اطباء نے کہا ہے کہ کھجور انسانی بدن کو اعتدال پر لاتی ہے اور اس کا استعمال انسانی صحت کے لئے ایک نعمت عظمیٰ ہے۔ چونکہ کھجور کئی اعتبار سے مفید ہے اور کھانے میں لذیذ بھی ہے اس لئے حق تعالیٰ نے اہل جنت کو جو باغات دینے کا وعدہ کیا ہے اس میں بطور خاص کھجور کے درخت بھی لگوائے ہیں تاکہ اہل جنت اس پھل سے استفادہ بھی کر سکیں۔ اور اس کو کھا کر لذت بھی محسوس کرسکیں۔ یوں رب العالمین کے پیدا کردہ ہر پھل میں کچھ نہ کچھ مزا اور کچھ نہ کچھ افادیت ہوتی ہے لیکن کھجور کا معاملہ ہی دگرگوں ہے۔ اہل عرب کھجور کا بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں اس لئے نسبتاً وہ تندرست نظر آتے ہیں اور ان کی مردانگی اور رجولیت بھی نسبتاً قوی ہوتی ہے۔ اگر کھجور خاص نعمت نہ ہوتی تو جنت کی نعمتوں میں اس کا شمار نہ ہوتا۔
کھجور کے ساتھ ساتھ سورۂ رحمن میں انار کا بھی ذکر کیا گیاہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انار بھی لذت اور افادیت سے خالی نہیں ہے اس لئے اس کو بھی اہل جنت کیلئے پیدا کیا جائے گا۔
سورۂ انعام میں فرمایا گیا۔ اور جنت میں باغات ہوں گے جن میں انگور‘ زیتون اور انار ہوں گے۔ ان میں سے کچھ پھل ایسے ہوں گے جن کی شکلیں آپس میں ملتی جلتی ہوں گی اور کچھ ایسے ہوں گے جو اپنی شکل اور ذائقہ میں ایک دوسرے سے مختلف ہوں گے۔
زیتون اور انگور کی افادیت بھی منظم ہے۔ اس لئے اس کو بھی اہل جنت کو عطا کیا جائے گا توریت میں بھی انار کو جنتی پھل بتایا گیاہے۔ انارکی افادیت طے شدہ ہے۔ انار میں ذائقہ بھی ہوتا ہے اور افادیت بھی۔ جدید تحقیقات اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ انار میں کئی کیمیائی اجزاء پائے جاتے ہیں۔ انار میں لحمیات‘ نشاستہ‘ چکنائی‘ حیاتین‘ فولاد‘ کیلوریز‘ سوڈیم‘ پوٹاشیم‘ میگنیشم کاپرفاسفورس‘ سلفو کلورائیڈ‘ کیلشیم وغیرہ مناسب مقدار میں موجود ہوتی ہیں۔ ان سب اجزا کی موجودگی نے انار کو غذائی اور دوائی دونوں اعتبار سے بہترین پھل بنا دیا ہے۔
میٹھا انار حلق اور سینے کی سوزش کے لئے مفید ہے اور پھیپھڑوں کا ورم اتارنے میں اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ انار پرانی کھانسی کے لئے کارامد ہے‘ اس کا عرق پیٹ کو نرم کرتا ہے‘ یہ جسم کو اضافی غذائیت اور توانائی مہیا کرتا ہے اس کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہ فوراً ہی جزو بدن بن جاتا ہے۔ اور پیٹ میں ورم پیدا کرنے والے مادے کو ختم کرتا ہے۔انار معدہ کی سوزش کو دورکرتا ہے۔ انار پیشاب آور ہوتا ہے۔ یہ صفرا کو تسکین دیتا ہے جگر کی حدت کو ختم کرتا ہے۔ جسم کے تمام اعضاء کو یہ یکساں قوت دیتا ہی۔ مشہور ہے یہ بات کہ جس نے انار کھائے وہ ایک سال تک آنکھوں کی سوزش سے محفوظ رہے گا۔ جن لوگوں کا رنگ زرد ہو جاتا ہے یا معدے کی خرابی کی وجہ سے جن لوگوں کے ہونٹ خشک ہو جاتے ہیں انہیں انار کا استعمال کرنا چاہئے۔
خونی بواسیر کو رفع کرنے میں انار تریاق کا کام کرتا ہے۔ انار کے پتوں کا پانی ناک میں ڈالنے سے نکسیر بند ہو جاتی ہے۔ غرضیکہ انار حق تعالیٰ کا پیدا کردہ ایک اہم پھل ہے اور اس کی اہمیت محض اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ جنت کے پھلوں میں سے ایک ہے اور اس کو جنت میں قائم رکھنے کی وجہ یہی ہے کہ اس میں ذائقہ بھی ہے اور افادیت بھی ہے۔ میوے‘ کھجور اور انار کا ذکر کرنے کے بعد رب العالمین نے ایک بار پھر اس بات کو دہرایا ہے کہ تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے۔
اس کے بعد فرمایا: فِیْھِنَّ خَیْرَات حِسَان فَبِاَیِّ الاَئَ رَبَّکُمَا تُکَذِّبَان حُوْرَّ مَقْصُوْرَاتَ فِی الْخِیَام فَبِاَیِّ الاَئَ رَبَّکُمَا تُکَذِّبَان لَمْ یَطْمِئھُنْ اِنْسَ قَبْلَھُمْ وَلاَ جَان فَبِاَیِّ الاَئَ رَبَّکُمَا تُکَذِّبَان۔
جنت کی عورتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ جنت میں خوب سیرت اور خوبصورت عورتیں ہوں گی وہ عورتیں گوری رنگت والی اور خیموں میں محفوظ ہوں گی‘ جنتی لوگوں سے پہلے ان عورتوں کو نہ کسی انسان نے چھوا ہوگا اور نہ کسی جن نے۔ تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے۔ یہاں جنت کی حوروں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اہل جنت کو بطور خاص وہ حوریں عطا کی جائین گی جن کی خوبصورتی بے بے مثال ہوگی اور جن کی سیرت بھی لاجواب ہوگی۔ اس دنیا کی بعض عورتیں بہت خوبصورت ہوتی ہیں لیکن ان کے عادات و اخلاق بہت خراب ہوتے ہیں اور ان کا باطن مسخ ہوتا ہے۔ ایسی عورتیں خوبوصرت ہونے کے باوجود اپنے خاوند کے لئے جہنم بنی رہتی ہیں اور اس کے لئے وجہ بدسکونی ثابت ہوتی ہیں اور بعض عورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ ان کو حسن وجمال کی دولت بھی میسر ہوتی ہے اور ان کی اخلاق بھی بے مثال ہوتے ہیں لیکن ان کا کردار اچھا نہیں ہوتا اور وہ دوسرے لوگوں سے بھی اپنے ناجائز تعلقات بنائے رکھتی ہیں اور بعض عورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ ان کا کردار مضبوط ہوتا ہے لیکن وہ خواہ مخواہ بھی کسی کی ہوس کا شکار ہو جاتی ہیں اور اپنی حفاظت مکمل نہ ہونے کی وجہ سے انہیں غلط کار لوگوںکا نوالہ بننا پڑتاہے۔ جنت کی حوروں کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کردی گئی کہ جنت کی حوریں جو اہل جنت کو بطور انعام عطا ہوں گی ان کی ایک خوبی تویہ ہوگی کہ ان کا حسن و جمال دنیا کی عورتوں سے کہیں زیادہ ہوگا۔ دوسری خوبی ان میں یہ ہوگی کہ ان کی سیرتیں بھی ان کی صورتوں کی طرح قابل تعریف ہوں گی اور ان کی نیت اور ان کے خیالات میں وہ خرابیاں نہیں ہوں گی جو دنیادار عورتوں میں ہوا کرتی ہیں اور جن خرابیوں کی وجہ سے شوہر کا اور اہلخانہ کا ناک میں دم رہتا ہے۔ تیسری خوبی یہ ہے کہ ان کا کردار آئینہ کی طرح پاک صاف ہوگا انہیں اس سے پہلے نہ کسی انسان نے ہاتھ لگایا ہوگا اورنہ کسی جن نے۔یعنی جس طرح اس دنیا میں بعض عورتوں پر جنات چڑھ جاتے ہیں اور ان کے جسم کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں۔ جنت کی عورتیں اس طرح کے کھلواڑ سے محفوظ رہیں گی۔ چوتھی خوبی ان عورتوں میں یہ ہوگی کہ مضبوط قلعوں کے اندر اور قابل اعتبار خیموں کے اندر محفوظ ہوں گی اتنی ساری خوبیوں کی حوریں ان لوگوں کو عطا ہوں گی جو اس دنیا میں اپنے رب کی عبادت کرتے رہے اور زندگی کے تمام معاملات میں اپنے رب سے ڈرتے رہے۔ ان نعمتوںکا ذکر کرنے کے بعد رب العالمین نے پھر یہ فرمایا ہے کہ تم اپنے رب کی کس کس نعمت کی تکذیب کرو گے؟
اس کے بعد فرمایا: مُتْکِئِیْنَ عَلٰی فُرْشٍ خُضْرٍ وَّ عَبْقَرِیٍّ حِسَان فَبِاَیِّ الاَئَ رَبَّکُمَا تُکَذِّبَان تَبٰرَکَ اسْمُ رَبِّکِ ذِی الْجَلاَلِ وَالْاِکْرَام
اور اہل جنت بہت ہی خوشنما اور آرام دہ بسترو ںپر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے۔ بڑا بابرکت ہے تمہارا رب جو بہت ہی عظمت والا اور احسان کرنے والا ہے۔
اس آیت میں اہل جنت کا نقشہ اس انداز میں کھینچا گیا ہے کہ جیسے کسی بادشاہ کی نشست ہوتی ہے اور وہ آرام دہ گدوں پر‘ گائو تکیہ سے ٹیک لگا کر بیٹھتا ہے اور شاہانہ کروفر کے ساتھ لوگوں سے بات چیت کرتا ہے۔ بادشاہوں کو بھی کچھ نہ کچھ فکر ہوتی ہے۔ اگر بادشاہ عادل ہے تو اس کو رعایا کے غم اور دکھ پریشان رکھتے ہیںاور عام بادشاہوں کو اپنے عہد و منصب اور اپنے ذاتی معاملات کی فکر لگی رہتی ہے لیکن اہل جنت کا حال یہ ہوگا کہ انہیں کوئی غم ہوگا نہ کوئی چنتا۔ وہ انتہائی راحت و آرام کے ساتھ اپنی مسند پر ٹیک لگائے بیٹھے ہوں گے اور حورو غلمان ان کی خدمت کے لئے حاضر باش رہیں گے۔ کس قدر انعامات ہیں جو اللہ نے اس دنیا میں بھی اپنے بندوں کو عطا کئے ہیں اور جب اس کے بندے جنت میں داخل ہو جائیں گے تب بھی اس کے انعامات کی بارشیں بندوں پر ہوتی رہیں گی۔ ان انعامات کی ناقدری اور تکذیب وہی لوگ کر سکتے ہیں جن کے سینوں میں دل نہیں پتھر ہوں اور جن کے سروں میں عقل نہیں گوبر بھرا ہوا ہو۔ اللہ کے وہ بندے جن میں ذرا سی بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہے وہ سمجھتے ہیں کہ مالک کون و مکاں نے یہ انعامات اس لئے عطا کئے ہیںکہ ہم اپنے رب کے فضل و کرم کو محسوس کریں اس کی عظمت و برائی کا اعتراف کریں اور اس کے سامنے اپنا سر نیاز خم کریں۔ اس نے ہماری ضرورت کے لئے ہزاروں لاکھوں اشیاء پیدا کی ہیں۔ ہوا‘ پانی‘ آگ‘ روٹی ‘کپڑا‘ مکان‘ فرشتے‘ چاندستارے‘ دودھ اور گوشت مہیا کرنے والے جانور‘ دلوں کو سکون بخشنے والے بیوی بچے ہماری آنکھوں کو کیف عطا کرنے والے خوشنما مناظر‘ کھیل کھلونے‘ گل بوٹے‘ سفر کے لئے جہاز اور ریل گاڑیوں وغیرہ ہم اس دنیا میں جس طرف بھی اپنی نگاہ اٹھاتے ہیں اس طرف اللہ کے انعامات دکھائی دیتے ہیں۔اگر ہم صرف اپنے وجود ہی پر غور کریں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ کتنی ہی قیمتی نعمتیں ہمارے اپنے اندر بھی موجود ہیں۔ غوروفکر کے لئے اس نے دماغ عطا کیا‘ محسوس کرنے کے لئے قلب دیا‘ دیکھنے کے لئے آنکھیں بخشیں‘ سونگھنے کے لئے ناک دی‘ سننے کے لئے کان ہبہ کئے‘ کام کرنے کے لئے ہاتھ دئیے‘ چلنے کے لئے ٹانگیں دیں۔ ان میں سے کون سی ایسی نعمت ہے جس کی ہم تکذیب کر سکیں اور اگر ہمیں ان نعمتوں کی اہمیت کا اندازہ نہ ہو تو کان کی اہمیت کسی بہرے سے پوچھیں‘ بینائی کی اہمیت کا اندازہ ہم کسی اندھے سے مل کر لگائیں اور اگر ہمیں اپنی ٹانگوں کی اہمیت کا اندازہ نہ ہو تو کسی ایسے شخص سے ملاقات کریں جو اپاہج ہو اور جس میں چلنے پھرنے کی صلاحیت نہ ہو۔ انسان اگر صرف اپنے وجود کا صحیح طریقہ سے مطالعہ کر لے تو اس کو اندازہ ہو جائے گا کہ وہ اپنے مالک کے کتنے احسانات میں دبا ہوا ہے۔
سورۂ رحمن کے اختتام پر فرمایا ہے کہ بابرکت ہے وہ ذات گرامی کہ جس نے اپنی بڑائی اور عظمت و کبریائی کے ساتھ اپنے بندوں کے ساتھ احسان و کرم کا معاملہ کیا ہے۔ اس نے ہر قدم پر ایک نعمت ہمیں عطا کی ہے ہم اس کی کس کسنعمت کو جھٹلا سکتے ہیں؟
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے القول الجمیل میں سورۂ رحمن کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ سورۂ رحمن کی مندرجہ ذیل آیات جادو کے اثرات کو زائل کرتی ہیں۔ چنانچہ اس مقصد کے لئے ان آیات کو نماز فجر اور نماز مغرب کے بعد باوضو تین تین مرتبہ پڑھ کر پانی پر دم کر کے مریض کو پلائیں اور مریض پر دم بھی کریں۔ اس عمل کو لگاتار ۱۱ دن تک کریں۔ انشاء اللہ اس دوران سحر کے اثرات باطل ہو جائیں گے۔ آیات یہ ہیں: بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم۔ یَامَعْشَرَالْجِّنِ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَتَعُمُ اَنْ تَّنْفُذُوْا مِنْ اَفْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا لاَتَنْفُذُوْنَ اِلاَّبِسْلُطٰن۔ فَبِاَیِّ الاَئَ رَبَّکُمَا تُکَذِّبَان یُرُسَلُ عَلَیْکُمَا شُوَاظَ مِّنْ نَارِ۔ وَنْحَاس فَلاَ تَنْتَصِرَان۔
آخری قسط