خانہ کعبہ تاریخ کے آئینہ میں
قسط نمبر2
یہ مضمون راہنمائے عملیات ماہ جنوری2012کے شمارے سے لیا گیا ہے۔
اہم موضوعات جو اس مضمون میں زیر بحث آئیں گے
کعبہ کی موجودہ تعمیر
مقام ابراہیم و حجر اسود
مقام ابراہیم پر حضرت ابراہیم ؑ تین مرتبہ کھڑے ہوئے
کعبہ کی موجودہ تعمیر
1040ھ میں سلطان مراد ابن احمد خان، شاہ قسطنطنیہ نے جب دیکھا کہ اس کی عمارت بہت پرانی ہو گئی ہے تو اس نے سوائے رکن حجر اسود ( وہ کونہ جس میں حجر اسود نصب ہے) کے تمام عمارت منہدم کر کے نئی تعمیر کرائی، لیکن حجاج بن یوسف کی طرز پر۔ اندر سنگ مرمر کا فرش بچھایا اور اندر چھت پر نہایت نفیس مخملی چھت گیری لگائی گئی اور باہر کی دیواریں سنگ خارا سے چونہ میں چنیں، نہایت نفیس ریشمی سیاہ پردہ تمام کعبہ پر ڈالا، جس پر کلمہ طیبہ (لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ﷺ) لکھا ہوا تھا اور سنہری حاشیہ پر سلطان کا نام تھا۔
موجودہ کعبہ شریف سلطان مراد کا بنایا ہوا ہے یعنی مکمل عمارت کو منہدم کر کے اس کے بعد نئے سرے سے تعمیر نہیں کیا گیا۔
غلاف کعبہ ہر سال مصر سے بڑی دھوم دھام سے آتا رہا ایک مرتبہ پاکستان کے شہر لاہور سے بھی بن کر گیا، پہلے یہ طریقہ تھا کہ پرانا غلافِ کعبہ خدام کو دے دیا جاتا لوگ تبرک کے طور پر اسے خرید لیتے تھے، لیکن اب غلاف کعبہ سعودیہ میں ہی بنتا ہے اس پر شاہ سعود کا نام ہوتا ہے۔
مقام ابراہیم و حجر اسود
یہ دونوں جنتی یاقوت ہیں، بہت نورانی تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کا نور محو کر دیااگر ایسا نہ ہوتا تو یہ مشرق و مغرب کو چمکاتے۔
مقام ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کعبہ شریف کی تعمیر کرتے، جس قدر عمارت بلند ہوتی جاتی تھی یہ پتھر بھی اونچا ہوتا جاتا تھا، یہ پتھر آپ کے کھڑے ہونے سے نرم بھی ہو جاتا تھا کہ سختی کی وجہ سے آپ کے قدموں کو تکلیف نہ ہو; اسی لیے آپ کے قدموں کے نشان اس میں پڑ گئے تھے۔ اسی پتھر کوجبل ابی قُبیس پر رکھ کر اور اس کے اوپر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آواز دی’’اے اللہ کے بندو حج کے لیے آئو! اللہ تعالیٰ نے فرمایا:-
’’اور لوگوںمیں حج کا عام اعلادن کر دے وہ تیرے پاس حاضر ہوں گے، پیادہ اور ہر دبلی اونٹنی پر کہ ہر دور کی راہ سے آتی ہیں‘‘۔(سورہ حج 28)۔
آپ کے اس اعلان کے بعد ان تمام لوگوں نے لبیک کہا جنہوں نے بھی حج کرنا تھا۔ جس نے جتنی مرتبہ حج کرنا تھا اتنی مرتبہ ہی لبیک کہہ دیا، مائوں کے رحموں میں اور آباء کی پشتوں میں سے تا قیامت آنے والوں نے لبیک کہا(ماخوذ از تفسیر نعیمی)۔
نبی کریم ﷺ نے جب مقام ابراہیم کی عظمت کو بیان کیا توحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ ’’ہم اس کے پیچھے نماز نہ ادا کر لیا کریں؟ تو حضور ﷺ نے وحی کے انتظار میں خاموشی اختیار کی، لیکن اسی دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیت کا نزول ہو گیا۔ ارشاد ہوا’’اور (حکم دیا کہ) مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لو‘‘۔
مقام ابراہیم سے وہ پتھر مراد ہے جس پر کھڑے ہو کر ابراہیم ؑ نے کعبہ معظمہ کی تعمیر فرمائی۔ ابراہیم کے قدمین مطہرین کے نشانات اس پر ثبت ہیں۔ طواف کعبہ کے بعد طواف کی رکعتیں اسی مقام ابراہیم کے پیچھے پڑھی جاتی ہیں، اس میں بھی اتباعِ ملت ابراہیمی کی جھلک پائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل حضرت ابراہیم کے قدمین مطہرین کے نشانات کو وہ عظمت عطا فرمائی کہ قیامت تک طواف کرنے والوں کو حکم دیا کہ مقام ابراہیم کے پیچھے ( دو رکعت) نماز پڑھو، طواف کعبہ کے ساتھ چکر مکمل کرنے کے بعد طواف کی دو رکعت مسجد حرام میں پڑھنا واجب ہے لیکن مستحب یہ ہے کہ انمیں مقام ابراہیم کے پیچھے پڑھا جائے۔
مقام ابراہیم پر حضرت ابراہیم ؑ تین مرتبہ کھڑے ہوئے
(1) حضرت ابراہیم ؑجب کئی سال گزرنے بعد حضرت اسماعیل ؑ کو ملنے کے لیے آئے تو اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق حضرت سارہ ؓ سے وعدہ کر کے آئے کہ اپنے بیٹے کو دیکھ کر اور ملاقات کر کے واپس آ جائوں گا۔ سواری سے نہیں اُتروں گا، آپ علیہ السلام جب مکہ میں آئے تو حضرت اسماعیل ؑ تو شکار کرنے کے لیے گئے ہوئے تھے، بہو سے ملاقات ہوئی، اس سے گزر اوقات کے متعلق پوچھا، اس نے کہا’’اچھا گزارا نہیں، تنگدستی ہے، صرف شکار پر گزر اوقات ہو رہی ہے‘‘۔
آپ علیہ السلام نے واپس چلتے ہوئے کہا ’’اپنے خاوند کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ تمہارے گھر کی چوکھٹ اچھی نہیں اسے بدل لو‘‘۔
حضرت اسماعیل ؑ جب گھر آئے تو خود ہی پوچھا کہ آج کوئی بزرگ تو نہیں آئے تھے؟ تو آپ کی زوجہ نے کہا کہ آئے تھے اور سلام کہہ کر گئے ہیں اور ایک پیغام دے کر گئے ہیں، جب پیغام کی اس نے تفصیل بیان کی تو آپ نے اپنی زوجہ کو فارغ کر دیا، کہ وہ تمہیں فارغ کر دینے کا حکم دے گئے ہیں۔
وجہ یہ تھی کہ اس نے رب تعالیٰ کی ناشکری کی تھی، نبی کی زوجہ کی شان کے یہ لائق نہیں کہ وہ کم روزی پر شکایت کرے، بلکہ صابر رہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام دوبارہ پھر اسماعیل ؑ کو ملنے کے لیے آئے اس وقت بھی اسماعیل ؑ گھر پر موجود نہ تھے، آپ علیہ السلام کی ملاقات بہو سے ہوئی (یہ حضرت اسماعیل کی دوسری شادی تھی) اس سے گھر کے حالات پوچھے اس نے کہا’’اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اچھا وقت گزر رہا ہے، زمزم کے پانی پر ہمارا قبضہ ہے، میرے خاوند شکار کر کے لے آتے ہیں، بہت اچھا وقت پاس ہو رہا ہے‘‘۔
حضرت ابراہیم جب واپس جانے لگے تو آپ کی بہو نے اصرار کیا کہ آپ ہمارے گھر رُکیں، لیکن آپ نے کہا ’’مجھے سواری سے اتر کر زمین پر آنے کی اجازت نہیں‘‘ تو آپ کی بہو نے کہا کہ آپ اپنے پائوں اس پتھر پر رکھیں تاکہ میں اس کو دھو دوں، آپ علیہ السلام نے جس پتھر پر پائوں رکھے وہ ’’مقام ابراہیم‘‘ ہی تھا۔
آپ علیہ السلام نے واپس چلتے ہوئے حضرت اسماعیل ؑ کے لیے سلام کہا اور پیغام دیا کہ ’’گھر کی چوکھٹ اچھی ہے اسے مضبوط رکھنا‘‘۔
(2) تعمیر کعبہ کے وقت آپ اس پر کھڑے ہوئے تھے وہ نرم ہو جاتا تھا، تاکہ آپ علیہ السلام کے پائوں مبارک کو سختی کی وجہ سے تکلیف نہ ہو، اسی وجہ سے آپ علیہ السلام کے قدموں کے نشانات اس میں پڑ گئے۔ آپ جب بلند ہونا چاہتے تھے تو وہ پتھر خود بخود اوپر اٹھ جاتا تھا، جب نیچے آنا چاہتے تھے تو نیچے ہو جاتا تھا۔ عام مستریوں کی طرح آپ علیہ السلام کو پھٹے باندھنے کی ضرورت پیش نہ آتی تھی۔
(3) کعبہ شریف کی تعمیر کے بعد آپ علیہ السلام نے اسی پتھر پر کھڑے ہو کر جبل ابو قبیس پر سے لوگوں کو حج کی دعوت دی۔(تفسیر کبیر، نعیمی)۔
دنیا پر مسلمانوں کے لیے سب سے متبرک مقام کی کہانی تو بہت طویل اور دلچسپ ہے۔ تاہ کوشش کی گئی ہے کہ قارئین کیلیے ایک اجمالی خاکہ پیش کیا جائے تاکہ وہ ماضِی سے فیض یاب ہو سکیں۔
خانہ کعبہ تاریخ کے آئینہ میں
قسط نمبر2
یہ مضمون راہنمائے عملیات ماہ جنوری2012کے شمارے سے لیا گیا ہے۔
kaaba ki mojooda taamer
maqam ibrahim o hijr Aswed
maqam ibrahim par hazrat ibrahim? teen martaba kharray hue
Current construction of Kaaba
The place of Ibrahim and the Black Stone