مسئلہ : تعزیت مسنون ہے حدیث میں ہے جو اپنے بھائی مسلمان کی مصیبت میں تعزیت کرے قیامت کے دن اللہ تعالی اسے کرامت کا جوڑا پہنائے گا اس کو ابن ماجہ نے روایت کیا دوسری حدیث ترمذی و ابن ماجہ میں ہے جو کسی مصیبت زدہ کی تعزیت کرے اسے اسی کے مثل ثواب ملے گا۔مسئلہ :تعزیت کا وقت موت سے تین دن تک ہے اس کے بعد مکروہ ہے کہ غم تازہ ہو گا مگر جب تعزیت کرنے والا یا جس کی تعزیت کی جائے وہاں موجود نہ ہو یا موجود ہے مگر اسے علم نہیں تو بعد میں حرج نہیں(جوہرہ درالمتحار)۔
مسئلہ :دفن سے پیشتر بھی تعزیت جائز ہے مگر افضل یہ ہے کہ دفن کے بعد ہو یہ اس وقت ہے کہ اولیائے میت جزع و فزع نہ کرتے ہوں ورنہ ان کی تسلی کے لیے دفن سے پیشتر ہی کرے۔(جوہرہ) مسئلہ: مستحب یہ ہے کہ میت کے تمام اقارب کو تعزیت کریں چھوٹے بڑے مرد و عورت کو اس کے محارم ہی تعزیت کریں۔ تعزیت میں یہ کہے اللہ تعالی میت کی مغفرت فرمائے اور اس کو اپنی رحمت میں ڈھانکے اور تم کو صبر روزی کرے اور اس مصیبت پر ثواب عطا فرمائے اور نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ان لفظوں سے تعزیت فرمائی “لِلّٰہِ مَااَخَذَ وَاَعْطیٰ وَکُلُّ شؑیٍ عِنْدَہ‘ بِاَجَلٍ مُّسؑمًّی”اللہ ہی کا ہے جو اس نے لیا اور دیا اور اس کے نزدیک ہر چیز ایک میعاد مقرر کے ساتھ ہے(عالمگیری وغیرہ)۔
مسئلہ :مصیبت پر صبر کرے تو اسے دو ثواب ملتے ہیں ایک مصیبت کا دوسرا صبر کا اور جزع نہیں اور مکان کے دروازے پر یا شارع عام پر بچھو نے بچھا کربیٹھنا بری بات ہے۔(عالمگیری درمختار) مسئلہ :میت کے پڑوسی یا دور کے رشتہ دار اگر میت کے گھر والوں کے لیے اس دن اور رات کے لئے کھانا لائیں تو بہتر ہے اور انہیں اصرار کر کے کھلائیں۔(ردالمحتار)۔
مسئلہ :میت کے گھر والے تیجہ وغیرہ کے دن دعوت کریں تو ناجائز و بدعت قبیحہ ہے کہ دعوت تو خوشی کے وقت مشروع ہے نہ کہ غم کے وقت اور اگر فقرا کو کھلائیں تو بہتر ہے۔(فتح القدیر)مسئلہ :جن لوگوں سے قرآن مجید یا کلمہ طیبہ پڑھوا یا ان کے لئے بھی کھانا تیار کرنا ناجائز ہے۔(ردالمحتار) یعنی جبکہ ٹھہرالیا ہو یا معروف ہو یا وہ اغنیا ہوں۔
مسئلہ: تیجے وغیرہ کا کھانا اکثر میت کے ترکہ سے کیا جاتا ہے اس میں یہ لحاظ ضروری ہے کہ ورثہ میں کوئی نابالغ نہ ہو ورنہ سخت حرام ہے۔ یوں ہی اگر بعض ورثہ موجود نہ ہوں جب بھی ناجائز ہے جبکہ غیر موجودین سے اجازات نہ لی ہو اور سب بالغ ہوں اور سب کی اجازت سے ہو یا کچھ نابالغ یا غیرموجود ہوں مگر بالغ موجود اپنے حصہ سے کرے تو حرج نہیں۔(خانیہ وغیرہ)۔
مسئلہ :تعزیت کے لئے اکثر عورتیں رشتہ دار جمع ہوتی ہیں اور روتی پیٹتی نوحہ کرتی ہیں انہیں کھانا نہ دیا جائے کہ گناہ پرمدد دینا ہے( کشف الغطا)۔ مسئلہ : میت کے گھر والوں کو جو کھانا بھیجا جاتا ہے یہ کھانا صرف گھر والے کھائیں اور انہیں کے لائق بھیجا جائے زیادہ نہیں۔ اوروں کو وہ کھانا کھانا منع ہے(کشف الغطا)اور صرف پہلے دن کھانا بھیجنا درست ہے اس کے بعد مکروہ۔(عالمگیری)۔
مسئلہ :قبرستان میں تعزیت کرنا بدعت ہے(ردالمحتار)اور دفن کے بعد میت کے مکان پر آنا اور تعزیت کرنادفن کے پہلے ہو یا بعد اسی وقت ہو یا کسی اور وقت خلاف اولٰی ہے اور کریں تو گناہ بھی نہیں ۔مسئلہ :جو ایک بار تعزیت کر آیا اسے دوبارہ تعزیت کے لئے جانا مکروہ ہے۔(درمختار)۔
مسئلہ: سوگ کے لئے سیاہ کپڑے پہننا مردوں کو ناجائز ہے۔ (عالمگیری) یوں ہی سیاہ بلے لگانا کہ اس میں نصاریٰ کی مشابہت بھی ہے۔ مسئلہ: میت کے گھر والوں کو تین دن تک اس لئے بیٹھنا کہ لوگ آئیںاور تعزیت کر جائیں جائز ہے مگر ترک بہتر اور یہ اس وقت ہے کہ فروش اور دیگر آرائش نہ کرنا ہو ورنہ ناجائز(عالمگیری ردالمحتار)مسئلہ: نوحہ یعنی میت کے اوصاف مبالغہ کے ساتھ بیان کر کے آواز سے رونا جس کو بین کہتے ہیں بالاجماع حرام ہے۔ یوں ہی واویلا ومصیبت کہہ کے چلانا(جوہرہ وغیرہ)۔
مسئلہ: گریبان پھاڑنا‘ منہ نوچنا‘ بال کھولنا سر پر خاک ڈالنا‘ سینہ کوٹنا‘ ران پر ہاتھ مارنا‘ یہ سب جاہلیت کے کام ہیں اور حرام۔ (عالمگیری) مسئلہ: تین دن سے زیادہ سوگ جائز نہیں مگر عورت شوہر کے مرنے پر چار مہینے دس دن سوگ کرے۔(حدیث) مسئلہ: آواز سے رونا منع ہے اور آواز بلند نہ ہو تو اس کی ممانعت نہیں بلکہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حضرات ابراہیم رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات پر بکا فرمایا(جوہرہ) اس مقام پر بعض احادیث جو نوحہ وغیرہ کے بارہ میں وارد ہیں ذکرکی جاتی ہیں کہ مسلمان بغور دیکھیںاور اپنے یہاں کی عورتوں کو سنائیں کہ یہ بلا ہندوستان کی اکثر عورتوں میں ہندوئوں کی تقلید سے پائی جاتی ہے۔
حدیث نمبر ۱۔ بخاری و مسلم عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ سے راوی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو منہ پر طمانچھ مارے اور گریبان پھاڑے اور جاہلیت کاپکارنا پکارے(نوحہ کرے) وہ ہم سے نہیں۔
حدیث نمبر ۲۔ صحیحین میں ابوبردہ ؓ سے مروی “واللفظ المسلم” فرماتے ہیںﷺ جو سر منڈا ئے اور نوحہ کرے اور کپڑے پھاڑے میں اس سے بری ہوں۔
حدیث نمبر ۳۔ صحیح مسلم شریف میں ابو مالک اشعری ؓ سے مروی فرماتے ہیں ﷺ میری امت میں چار کام جاہلیت کے ہیں لوگ انہیں نہ چھوڑیں گے حسب پر فخرکرنا اور نسب میں طعن کرنا اور ستاروں سے مینہ چاہنا اور نوحہ کرنا اور فرمایا نوحہ کرنے والی نے اگر مرنے سے پہلے توبہ نہ کی تو قیامت کے دن اس طرح کھڑی کی جائے گی کہ اس پر ایک کرتا قطران کا ہو گا اور ایک خارشت کا۔
حدیث نمبر ۴۔صحیحین میں عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی فرماتے ہیں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم آنکھ کے آنسو اور دل کے غم کے سبب اللہ تعالی عذاب نہیں فرماتا اور زبان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا لیکن اس کے سبب عذاب یا رحم فرماتا ہے اور گھر والوں کے رونے کی وجہ سے میت پر عذاب ہوتا ہے یعنی جبکہ اس نے وصیت کی ہو۔ یا وہاں رونے کا رواج ہو اور منع نہ کیا ہو۔ واللہ تعالی اعلم یا یہ مراد ہے کہ ان کے رونے سے اسے تکلیف ہوتی ہے کہ دوسری حدیث میں آیا اے اللہ کے بندو اپنے مردے کو تکلیف نہ دو جب تم رونے لگتے ہو وہ بھی روتا ہے۔
حدیث نمبر ۵۔ بخاری و مسلم مغیر بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جس پر نوحہ کیا گیا قیامت کے دن اس نوحہ کے سبب اس پرعذاب ہو گا‘ یعنی انہیں صورتوں میں۔
حدیث نمبر ۶۔ صحیح مسلم میں ہے ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں جب ابو سلمہ ؓ کا انتقال ہوا میں نے کہا مسافرت اور پردیس میں انتقال ہوا ان پر اس طرح روئوں گی جس کا چرچا ہو۔ میں نے رونے کا تہیہ کیا تھا اور ایک عورت بھی اس ارادہ سے آئی کہ میری مدد کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اس عورت سے فرمایا جس گھر سے اللہ تعالی نے شیطان کو دو مرتبہ نکالا تو اس میں شیطان کو داخل کرنا چاہتی ہے۔ فرماتی ہیں میں رونے سے باز آئی اور نہیں روئی۔
حدیث نمبر ۷۔ ترمذی ابو موسی ٰ رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں جومر جاتا ہے اور رونے والا اس کی خوبیان بیان کر کے روتا ہے اللہ تعالی اس میت پر دو فرشتے مقرر فرماتا ہے جواسے کونچتے ہیں اور کہتے ہیں کیا تو ایسا تھا۔
حدیث نمبر ۸۔ ابن ماجہ ابو امامہ ؓ سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیںاللہ عزوجل فرماتا ہے اے ابن آدم اگر تو اول صدمہ کے وقت صبر کرے اور ثواب کا طالب ہو تو تیرے لئے جنت کے سوا کسی ثواب پر میں راضی نہیں۔
حدیث نمبر ۹۔ احمد و بیہقی امام حسین بن علی رضی اللہ تعالی عنہا سے راوی کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جس مسلمان مرد یا عورت پر کوئی مصیبت پہنچی اسے یاد کر کے “انا للہ و انا الیہ راجعون”(۲:۱۵۶) کہے اگرچہ مصیبت کا زمانہ دراز ہو گیا ہو تو اللہ تعالی اس پرنیا ثواب عطافرماتا ہے اور ویسا ہی ثواب دیتا ہے جیسا اس دن کہ مصیبت پہنچی تھی۔ (بحوالہ بہار شریعت)۔
٭٭٭٭٭٭